مناسک حج کا ایک خاص اور اہم حصّہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 29 - 30 سوره حج / آیه 31 - 33


تفسیر
مناسک حج کا ایک خاص اور اہم حصّہ


مناسک حج کے متعلق مندرجہ بالا بحث کے بعد زیرِ نظر آیت میں انہی کے ایک اور حصّے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے، اس کے بعد اپنی گندگی اور فالتو اجزاء کو اپنے آپ سے دور کریں (ثُمَّ لِیَقْضُوا تَفَثَھُمْ) ۔ اور اپنی نذریں پوری کریں(وَلْیُوفُوا نُذُورَھُمْ ) ۔ اور مرور زمانہ کی دست بُردے سے محفوظ گھر کا طواف کریں (وَلْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْتِ الْعَتِیقِ) ۔
اکثر اہلِ زبان اور مشہور مفسرین کے بقول ”تفث“ کا مطلب میل کچیل کثافت اور غیرضروری اعضاء بدن جیسے ناخن، اور غیر ضروری بال ہیں، بعض کے مطابق اصل میں ناخن کے نیچے میل کچیل اور اس قسم کی چیزوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔(۱)
کئی دوسرے ماہرین لسانیات کے مطابق یہ لفظ سرے سے عربی زبان میں موجود ہی نہیں ہے، لیکن ”مفردات راغب“ کے مطابق ایک صحرائی عرب نے اپنے اس ساتھی سے جو میل کچیل اور گندگی سے اٹا ہوا تھا، کہا:
”ما اتفثک و ادرنک“
”تو کس قدر گندا اور غلیظ ہے“
اس سے ثابت ہوتاہے کہ عربی زبان میں یہ لفظ موجود ہے ۔
روایات میں بھی بارہا اس جُملے کا مفہوم ناخن کاٹنا، بدن صاف کرنا اور احرام اتارنا بیان کیا گیا ہے، بالفاظ دیگر یہ جملہ ”تقصیر“ کے عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جو مناسک حج میں سے ہے، اس طرح بعض روایات میں ”سرمنڈوانے“ کے لئے بھی یہ جملہ استعمال کیا گیا ہے اور وہ بھی ”تقصیر“ کا حصّہ ہے ۔
کنزالعرفان میں اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ اس جملے سے مراد تمام مناسک حج کو انجام دینا ہے ۔(۲) لیکن اس قول کی کوئی دلیل ہماری نظر میں نہیں ہے ۔

ایک لائق توجہ روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ”ثُمَّ لِیَقْضُوا تَفَثَھُمْ“ کی تفسیر اپنے زمانے کے امام سے ملاقات کرنے سے کی ہے اور جب راوی نے وضاحت چاہی اور عرض کیا کہ لوگ تو اس سے مراد ناخن کاٹنا اور غلاظت کو دُور کرنا لیتے ہیں ۔ تُو آپ(علیه السلام) نے فر مایا: ”قرآن مجید ظاہر وباطن رکھتا ہے“ یعنی امام سے ملاقات کا تعلق آیت کے باطنی معنی سے ہے ۔(3)
ہوسکتا ہے اس حدیث میں یہ نکتہ پنہاں ہو کہ خانہء خدا کا زائر مناسک حج ادا کرنے کے بعد جس طرح گندگی اور غلاظت کو اپنے بدن سے دور کرتا ہے، اسی طرح اپنے زمانے کے امام سے ملاقات کے بعد روحانی غلاظتوں سے پاک ہوجاتا ہے علی الخصوص جن ادوار میں ظالم اور جابر بادشاہ عم حالات میں مسلمانوں کو آئمہ اطہار علیہم السلام سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتے تھے مناسک حج اس سعا دت کا بہترین موقع ہوا کرتا تھا ۔
اسی مضمون کی ایک اور حدیث حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”تمام الحج لقاء الامام“
”حج کی تکمیل اپنے زمانے سے ملاقات پر ہوتی ہے“۔(4)
حقیقت بھی یہی ہے کہ مناسک حج اور ملاقات امام(علیه السلام) دونوں ہی ذریعہ تطہیر ہیں، ایک ظاہری غلاظت وکثافت کی تطہیر کا اور دوسرا باطنی جہالت واخلاقی انحطاط کا تطہیر کا ۔
رہ گیا منتیں اتارنے کا مسئلہ تو اس سے مراد ہے کہ صدر اسلام میں بعض مسلمان منّت مان لیتے تھے کہ اگر انھیں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تو مناسک حج کے علاوہ امور خیر صدقات اور قربانی بجالائیں گے، بسا اوقات اپنی مراد پانے کے بعد منّت اتارنا بھول جاتے تھے، اس لئے قرآن مجید میں منّت اتارنے کی تاکید آئی ہے ۔(5)
خانہٴ کعبہ ”بیت العتیق“کہا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ”عتیق“ لفظ ”عتق“ سے مشتق ہے اور اس کا معنیٰ قید وبند سے آزاد ہونا ہے، احتمال یہ ہے کہ چونکہ ”خانہٴ کعبہ“ انسان کی قید وبند سے ماوراء ہے اور کسی زمانے میں بھی اس لئے اسے ”بیت العتیق“ کہا گیا ہے ۔

عتیق کا ایک اور معنی بیش بہا اور قابل قدر بھی ہے، یہ معنی بھی خانہٴ کعبہ کے لئے بالکل درست ہے، ”عتیق“ کا ایک اور مطلب ”قدیم“ بھی ہے، جیسے مفردات راغب میں ہے ۔
”العتیق المتقدم فی الزّمان اٴو المکان اٴو الرتبة“
”عتق، وہ چیز ہے جو زمان ومکان اور ر تبے کے لحاظ سے اولیٰ ہو“۔
اوّلیت کا معنیٰ بھی خانہٴ کعبہ پر بھی عین مطنبق ہوتا ہے، کیونکہ سورہٴ آل عمران آیت ۹۶ میں ہے:
<إِنَّ اٴَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَھُدًی لِلْعَالَمِینَ۔
”دنیا میں سب سے پہلا مبارک اور ہدایت کنندہٴ توحیدوہ گھر ہے جو مکّہ میں ہے“۔
بہرحال کوئی حرج نہیں، اگر یہ لفظ اپنے تمام معانی کے ساتھ خانہٴ کعبہ کی تمام خصوصیات کی وجہ سے اس کے لئے استعمال کیا جائے، اگرچہ مفسرین میں سے ہر ایک نے ان میں سے بعض معانی کی طرف اشارہ کیا ہے، یا مختلف روایات میں سے ہر ایک روایت میں کسی ایک معنیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
آیت کے آخری حصّے میں ”طواف“ کا ذکر کیا گیا ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ اس سے مراد کون سا طواف ہے چونکہ منیٰ میں قربانی کے بعد حجاج کرام دو طواف بجالاتے ہیں، پہلے کو ”طواف زیارت“ اور دوسرے کو ”طواف نساء“ کہا جاتا ہے بعض فقہاء اور مفسرین کیا خیال ہے کہ چونکہ آیت میں طواف بلا قید اور غیر مشروط ہے، لہٰذا اس کا مفہوم عام ہے، یعنی اس لفظ سے سبھی طواف مراد لئے جاسکتے ہیں، طواف زیارت، طواف نساء، حتّیٰ کہ طواف عمرہ بھی اس میں شامل ہے ۔(6)
بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد صرف طوافِ زیارت ہے جوکہ احرام کھولنے کے بعد واجب ہوتا ہے ۔(7)
اس ضمن میں جو روایات آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کے مطابق اس سے مراد ”طواف نساء“ ہے، چنانچہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ولیوفوا نذورھم ولیطوفو بالبیت العتیق“
اس روایت میں طواف سے مراد طواف نساء ہے ۔
امام رضا علیہ السلام سے بھی یہی معنیٰ مروی ہیں ۔(8)
یہ وہی طواف ہے جسے اہلِ سنّت ”طواف وداع“ کہتے ہیں ۔
بہرحال مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر آخری تفسیر زیادہ قوی دکھائی دیتی ہے، علی الخصوص اس کا امکان ہے کہ ”ثُمَّ لِیَقْضُوا تَفَثَھُمْ “کے جملے سے بدن کو غلاظت سے پاک کرنے کے بعد پاکیزگی کی تکمیل کے لئے معطّر کرنا بھی مراد ہویہ بھی مسلّمہ امر ہے کہ حج کے سلسلے میں معطّر صرف اس وقت ہوا جاسکتا ہے، جب حاجی طواف وسعی زیارت سے فارغ ہوچکا ہو لہٰذا اس صورت میں ”طواف نساء“ کے سوا اور کوئی طواف حاجی کے ذمے نہیں ہوتا (غور کیجئے) ۔
گذشتہ آیتوں کی بحثوں کو سمیٹتے ہوئے بعد والی آیت میں کہا جارہا ہے، مناسک حج کی تفصیلات یہی ہیں (ذٰلِکَ) ۔(9)

اس کے بعد مذکورہ فرائض اور ذمہ داریوں کی تاکید کے طور پر بیان کیا جارہا ہے ”جو شخص الله کے لائحہ عمل کا احترام کرے اور اس کو اہم جانے اس کے لئے الله کے ہاں بہتر جزاء موجود ہے (وَمَنْ یُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللهِ فَھُوَ خَیْرٌ لَہُ عِنْدَ رَبِّہِ) ۔
واضح سی بات کہ (حُرُمَات) سے مراد مناسک حج ہیں، ہوسکتا ہے، خصوصی طور پر خانہٴ کعبہ اور عمومی طور پر حرم مکّہ کا احترام واکرام بھی اس میں شامل ہولہٰذا خاص طور پر تمام اوامر ونواہی کو اس میں شامل کرلینا ظاہرِ آیت کے خلاف ہے، ”حرمات“ جمع ہے ”حرمت“ کی اور لفظ ”حرمت“ اس چیز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جس کا احترام ملحوظ خاطر رہنا چاہیے اور اس کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہیے ۔
اس کے بعد احکام احرام کی مناسبت سے چوپاوٴں کے حلال ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، چوپائے (بھیڑ بکری، گائے، بھینس اور اونٹ وغیرہ) تمھارے لئے حلال ہیں، سوائے اُن کے جو بعد ازاں بتائے جائیں گے، اور ان کی ممانعت کا حُکم دیا جائے گا (وَاٴُحِلَّتْ لَکُمْ الْاٴَنْعَامُ إِلاَّ مَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ) ۔ اس آیت کا آخری حصّہ (إِلاَّ مَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ) حالت احرام میں شکار کی حرمت کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے، جیسا کہ سورہٴ مائدہ آیت۹۵ میں فرمایا گیا ہے:
<یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاٴَنْتُمْ حُرُمٌ۔
”اے صاحبانِ ایمان! حالتِ احرام میں شکار نہ کرو“۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حرمت، زیرِ بحث آیت کے جملے کی طرف اشارہ ہو جو بتوں کے لئے کی جانے والی قربانیوں کی حرمت کے بارے میں آیا ہے، کیونکہ یہ مسلّم ہے کہ جانور کا حلال ہونا، صرف اس صورت میں ہے کہ ذبح کرتے الله کا نام لیا جائے نہ بتوں یا کسی اور کا ۔
آیت کے آخر میں، مناسک حج کے ذیل میں اور زمانہء جاہلیت کے طور طریقوں کے خلاف دو مزید حکم دیئے جارہے ہیں:
۱۔ بتوں کی غلاظت وگندگی سے اجتناب کرو (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاٴَوْثَانِ) ۔
”اوثان“ جمع ”وثن“ (بروزن ”کفن“) ہے، اس سے مراد وہ پتھر ہیں، جو معبود کے طور پر رکھے جاتے تھے ۔یہاں لفظ ”اوثان“ ”رجس“ کی وضاحت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جو اس سے پہلے ہے یعنی آیت کا جملہ کچھ یوںہے ۔ گندگی اور غلاظت سے اجتناب کرو، بعد میں کہا جاتا ہے گویا کہ پلیدگی وہی بت ہیں، توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اسلام سے پہلے بت پرست، قربانی کرنے کے بعد، قربانی کا خون بتوں کے سروں اور چہروں پرمل دیتے تھے، اس طرح بڑی کریہة النظر کیفیت پیدا ہوجاتی تھی، ممکن ہے زیرِ بحث آیت میں اسی طرح اشارہ ہو۔
”اور بیہودہ گفتگو سے اجتناب کرو“ (وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ) ۔


نکتہ
”قول الزور“ کیا ہے؟


بعض مفسرین کے مطابق ”قول الزور“ سے مراد قبل از اسلام حج کے دوران مشرکین کا ”تلبیہ“ ہے انھوں نے توحید کے آئینہ دار ”تلبیہ“ کو مسخ کرکے رکھ دیا تھا، چنانچہ تلبیہ مشرکانہ روشوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا، وہ اس طرح ”تلبیہ“ کہتے تھے:
”لبیک لا شریک لبیک الّا شریکا ھو لک، تملکہ وَمَا ملک“
”ہم نے تیری دعوت کو قبول کیا اور ہم تیری بارگاہ میں آحاضر ہوئے، اے وہ خدا جس کا سوائے اس مخصوص شریک کے کوئی شریک نہیں تو بھی اس کا ہے اور اس کی ہر شے کا مالک بھی تو ہی ہے“۔
یہ جملہ بلاشک وشبہ خرافات سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اور ”قول الزور“ کا صحیح مصداق ہے، جس کا مطلب، جھوٹ، باطل اور نامناسب کلام ہوتا ہے ۔
اس صورت میں اگر کہا جائے کہ یہ آیت مشرکین مکّہ کے حج کے طور طریقے سے متعلق ہے تو یہ آیت کا کُلی مفہوم سے مانع نہیں ہے اور ہر قسم اور ہر طرح کے بُت سے پرہیز اور لغو اور بیہودہ بات سے اجتناب کا حکم، اس میں شامل رہتا ہے، بعض روایات میں ”اوثان“ سے شطرنج (جو جوئے کی ایک قسم ہے) مراد لیا گیا ہے اور ”قول الزور“ سے غناء اور جھوٹی گواہی مراد ہے، دراصل یہ سب ایک کل کے مختلف اجزاء ہیں اور زیربحث آیت میں ان سب پر محیط ہے، نہ یہ کہ کسی ایک معنی میں منحصر ہے ۔
اسلام کے قابل احترام پیغمبر سے ایک روایت مروی ہے کہ ایک دفعہ آپ نے موعظہ کے دوران فرمایا:
”ایھا النّاس عدلت شھادة الزور بالشرک بِالله“
”اے لوگو! جھوٹی گواہی دینا الله کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینے کے مترادف ہے ۔
پھر آپ نے یہی آیت <فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاٴَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ کی تلاوت فرمائی ۔
یہ حدیث بھی زیرِ بحث آیت کی وسعت پر دلالت کرتی ہے ۔

]
۱۔ کنزالعرفان، تفسیر مجمع البیان اور دوسری تفاسیر، نیز قاموس اللغة اور مفردات راغب۔
۲۔ کنزالعرفان، ج۱، ص۲۷۰
3۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۴۹۲
4۔ وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۲۵۵، ابواب المزار باب۲، حدیث۱۳
5۔ بعض مفسرین نے ”نذر“ سے خود مناسک حج مراد لیا ہے، لیکن مزاج قرآن کے مطابق لفظ ”نذر“ ”منت“ ہی کے لئے آیا ہے، اس لئے اس کا ”مناسک حج“ کا معنیٰ ظاہر آیت کے خلاف ہے ۔
6۔ کنز العرفان، ج۱، ص۲۷۱
7۔ تفسیر مجمع البیان میں یہ نظریہ مفسرین کا نام لیے بغیر درج کیا گیا ہے ۔
8۔ وسائل الشیعہ، ج۹، ص۳۹۰، ابواب الطواف، باب۳
9۔ اس لفظ کے تحت ایک پورا جُملہ محذوف ہے وہ یہ ہے: (کذلک امر الحج والمناسک) ۔

 

سوره حج / آیه 29 - 30 سوره حج / آیه 31 - 33
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma