کج بحثی کرنے والوں کے بارے میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 8 - 10 سوره حج / آیه 11 - 14

تفسیر
کج بحثی کرنے والوں کے بارے میں


اِن آیتوں میں بھی ان لوگوں کو کج بحثی کا تذکرہ ہے جو مبداء ومعاد سے متعلق بے سر وپا باتیں کرتے ہیں ۔
پہلے بیان کیا جارہا ہے کہ لوگوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو کسی قسم کے علم، ہدایت اور کتاب کے بغیر ہی خدا کے بارے میں کج بحثی کرنے لگتا ہے
(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَاھُدًی وَلَاکِتَابٍ مُنِیرٍ)
(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ) کا جملہ پہلے چند آیتوں میں گزر چکا ہے، یہاں اس کی وہی تعبیر ہے جو وہاں تھی، جُملے کا تکرار ظاہر کرتا ہے کہ وہاں اس جملے سے اور لوگ مراد تھے اور یہاں کوئی اور۔
”تفسیر المیزان“ اور ”کبیر“ میں مذکورہ بالا دونوں گروہوں میں یہ فرق بیان کیا گیا ہے کہ پہلے کی آیتوں اس جملے سے مراد گمراہ اور بے خبر عوام الناس ہیں،جبکہ اس آیت میں خواص اور سربر آوردہ افراد ہیں
(لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ) کا جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس گروہ کا کام دوسروں کو راہ راست سے بھٹکانا ہے، یہی مذکورہ بالا فرق واضح قرینہ ہے، جیسے گذشتہ آیتوں میں (یتبع کل شیطان مرید) کا جملہ جو شیطانوں کی پیروی کے بارے میں تھا،، اس معنی کو زیادہ واضح کرتا ہے ۔
اس بارے میں کہ ”علم“
”ھدی“ اور ”کِتَابٍ مُنِیرٍ“ میں کیا فرق ہے، مفسرین کے درمیان اس میں بھی اختلاف ہے، ہماری نظر میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ ”علم“ سے عقلی استدلال کی طرف اشارہ ہے، ”ھدی“ سے الله سبحانہ کی طرف سے انبیاء(علیه السلام)، ائمہ(علیه السلام) اور صلحاء کی رہنمائی کی طرف اور ”کِتَابٍ مُنِیرٍ“ سے آسمانی کتابوں کی طرف اشارہ ہے، زیادہ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس جملے میں کتاب، سنت اور دلیل عقلی تینوں مشہور دلائل اور ”اجماع“ (اس معنیٰ میں کہ علماء کے مطابق در اصل اس سے مراد بھی سنّت ہی ہے) ساری ادلّہ شرعیہ اربعہ بیان کردی گئی ہیں ۔
بعض مفسّرین کے مطابق
”ھدی“ سے مراد وہ معنوی رہنمائی ہے، جو انسان کو ذاتی اصلاح پرہیزگاری اور تہذیب نفس کے ذریعے حاصل ہوتی ہے (البتہ یہ مفہوم ہمارے مذکورہ بالا مفہوم کے ہم آہنگ ہے) در اصل علمی بحث وتمحیص اس صُورت میں مفید ونتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے، جب یہ کتاب، سنت اور دلائل عقلی پر مبنی ہو۔
اس کے بعد ان گمراہی کے رہبروں کی روگردانی کی ایک وجہ ایک مختصر مگر معنی خیز جملے میں بیان کی حارہی ہے، وہ تکبر اور خدا کی باتوں اور واضح عقلی دلائل سے بے اعتنائی کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو راہ خدا سے ہٹالیں
(ثَانِیَ عِطْفِہِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ) ۔
”ثَانِیَ“ ”‘ثنیٰ “ کے مادہ سے لپٹنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ”عطف“ پہلو کے معنیٰ میں، پہلو ”لپیٹنا“ کسی چیز سے پہلو تہی اور بے اعتنائی کا ایک لطیف کنایہ ہے ۔
”لِیُضِلَّ“ کے بارے میں دو احتمال ہیں، ایک تو یہ کہ یہ اُن لوگوں کی پہلو تہی اور روگردانی کا مقصد ہو، یعنی وہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی خاطر خدائی آیتوں اور ہدایت سے بے اعتنائی کرتے اور اِنھیں کچھ نہیں سمجھتے، دوسرا یہ کہ ان کی پہلو تہی کا نتیجہ ہو، یعنی ان کی بے اعتنائی کا ثمر یہ ہو ہے کہ لوگوں کو راہِ حق سے پھیر دیتے ہیں ۔
اس کے بعد دنیا وآخرت میں ان کا انجام بیان کیا گیا ہے، کہ اس دنیا میں ذلّت، رسوائی اور بدنصیبی ان کا مقدر ہے اور آخرت میں ہم انھیں جلادینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے
(لَہُ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَنُذِیقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَذَابَ الْحَرِیقِ) ۔
اور ان میں سے ہر ایک سے کہا جائے گا: ”یہ تیرا ہی کیا دھرا ہے، یہ وہ ہے جو تو نے اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجا ہے
(ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاکَ) اور الله ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا (وَاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ) ۔ یہ کسی کو بلاوجہ سزا دیتا ہے اور نہ ہی سزا میں بلاوجہ اضافہ کرتا ہے، اس کا کام تو صرف عدل وانصاف کرنا ہے ۔(۱)
یہ آیہٴ مجیدیہ ان آیتوں میں سے جو جبر کے قائل فرقے کے نظریات کی نفی کرتی ہے اور افعالِ خدا میں عدالت کو ثابت کرتی ہے (مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی تیسری جلد سورہٴ ال عمران آیت ۱۸۲ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں) ۔


 

 


۱۔ ”ظلام“ مبالغے کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ہے ”بہت زیادہ ظلم کرنے والا“ خدائے تعالیٰ جو مطلقاً ظلم نہیں کرتا، اس لئے یہ لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بلاوجہ سزا دینا سزا میں اضافہ کرنا خدا کے نزدیک ایسا ہی ہے ، جیسے ہمیشہ کے لئے بہت زیادہ ظلم کیا جاتا ہے ۔
سوره حج / آیه 8 - 10 سوره حج / آیه 11 - 14
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma