مسیح(علیه السلام) پر انعاماتِ الٰہی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا حواریوں پر مائدہ کے نزول کا واقعہ

مسیح(علیه السلام) پر انعاماتِ الٰہی

 

یہ آیت اور سورہٴ مائدہ کے آخر تک بعد والی آیات حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی سرگذشت اور ان انعامات سے مربوط ہیں جو آنجناب(علیه السلام) اور ان کی اُمت کو بخشی گئیں اور وہ یہاں پرمسلمانوں کی بیداری اور آگاہی کے لئے بیان ہوئی ہیں پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے عیسیٰ (علیه السلام) ابن مریم سے فرمایا کہ تم اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی (إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ) ۔
اس تفسیر کے مطابق اوپر والی آیات ایک مستقل بحث شروع کررہی ہیں جو مسلمانوں کے لئے تربیتی پہلو رکھتی ہے اور اس کا اسی دنیا کے ساتھ ربط ہے، لیکن بعض مفسرین مثلاً طبرسیۺ، بیضاوی اور ابوالفتوح رازی نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت کا ضمیمہ ہے اور اس کا ربط ان سوالات اور باتوں سے ہے جو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن پیغمبروں سے کرے گا اور اس بناپر
”قَالَ “ جو فعل ماضی ہے یہاں ”یقول“ یعنی فعل مضارع کے معنی میں ہوگا، لیکن یہ احتمال ظاہرِ آیت کے خلاف ہے، خاص طور پر جبکہ معمول یہ ہے کہ کسی کے لئے نعمتوں کا شمار کرنا اس میں روحِ شکرگزاری زندہ کرنے کی غرض سے ہوتا ہے، جبکہ قیامت میں یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا ۔ اس کے بعد اپنی نعمات کا ذکر شروع کردیا ہے، پہلے کہتا ہے: میں نے تجھے روح القدس کے ذریعے تقویت دی ہے (إِذْ اٴَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ ) ۔
روح قدس کے معنی کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے(۱)
خلاصہ یہ کہ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وحی لانے والا فرشتہ یعنی جبرئیل ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہی غیبی طاقت ہو جو حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو معجزے دکھانے اور رسالت کے کام سرانجام دینے کے لئے تقویت دیتی تھی اور یہ چیز انبیاء(علیه السلام) کے علاوہ دوسروں میں بھی ضعیف تر درجہ موجود ہوتی ہے ۔ نعمات الٰہی میں سے دوسری نعمت تجھ پر یہ ہے کہ روح القدس کی تائید کے ذریعے تو گہوراے میں اور پختہ کار ہوکر گفتگو کرتا تھا
(تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا ) ۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تیری گہوارہ کی باتیں بھی بڑے ہونے کے بعد کی باتوں کی مانند پختہ اور جچی تلی ہوتی تھیں اور وہ بچوں کی طرح بے وزن نہیں ہوتی تھیں ۔
تیسری نعمت یہ کہ میں نے تجھے کتاب وحکمت اور تورات وانجیل کی تعلیم دی
(وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ) ۔ کتاب کے ذکر کے بعد تورات وانجیل کا تذکرہ ہے جبکہ وہ بھی آسمانی کتابوں میں سے ہیں حقیقت میں اجمال کے بعد تفصیل کی صورت میں ہے ۔
چوتھی نعمت یہ ہے کہ تُو میرے حکم سے پرندے کی شکل کی ایک چیز مٹی سے بناتا تھا اس کے بعد اس میں پھونکتا تھا تو وہ میرے حکم سے ایک زندہ پرندہ ہوجاتی تھی
(وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیھَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی) ۔
پانچویں نعمت یہ ہے کہ تو میرے اذن سے مادر زاد واندھے اور برص کی بیماری میں مبتلا شخص کو شفا دیتا تھا
(وَتُبْرِءُ الْاٴَکْمَہَ وَالْاٴَبْرَصَ بِإِذْنِی) ۔ اور بالآخر میری نعمتوں میں سے ایک اور نعمت تجھ پر یہ تھی کہ میں نے بنی اسرائیل کو تجھے پہنچانے سے اس وقت باز رکھا جبکہ ان کے کافر تیرے واضح اور روشن دلائل کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں کھلا جادو کہنے لگے، میں نے اس تمام شور وغل اور سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کے مقابلے میں تیری حفاظت کی تاکہ تو اپنی دعوت کو آگے بڑھاسکے (وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْھُمْ إِنْ ھَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ) ۔
یہاں پر ایک بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں چار مرتبہ لفظ ”باذنی“ (میرے حکم سے)دُہرایا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کے لئے غلو اور دعائے الوہیت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے، یعنی جو کچھ وہ انجام دیتے تھے اگرچہ بہت عجیب وغریب اور حیرت انگیز تھا اور خدائی کاموں کے ساتھ شباہت رکھتا تھا لیکن اُن میں سے کام خود عیسی(علیه السلام)ٰ کی طرف سے نہیں تھا کہ بلکہ یہ سب کام خدا کی طرف سے انجام پذیر ہوتے تھے، وہ ایک بندہٴ خدا تھے اور خداوندتعالیٰ کے تابع فرمان تھے اور ان کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ خدائے لایزال کی قدرت سے تھا ۔
ہوسکتا ہے یہ کہا جائے کہ یہ تمام نعمتیں حضرت عیسی(علیه السلام)ٰ کے ساتھ مربوط تھیں تو اس آیت میں ان نعمتوں کو ان کی والدہ جناب مریم(علیه السلام) کے لئے بھی نعمت کیوں شمار کیا گیا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ جو نعمت بیٹے تک پہنچتی ہے وہ حقیقت میں اس کی ماں کو بھی پہنچتی ہے کیونکہ دونوں ایک اصل سے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخ اور جڑ ہیں ۔
ضمنی طور پر جیسا کہ ہم سورہٴ آلِ عمران کی آیہ ۴۹ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں یہ آیت اور اسی قسم کی آیات اولیاء خدا کی ولایت تکوینی کے واضح دلائل میں سے ہیں کیونکہ مسیح(علیه السلام) کے قصّے میں مُردوں کو زندہ کرنے، مادر زاد اندھوں اور لاعلاج بیماروں کو شفا دینے کو مسیح(علیه السلام) کی ذات کی طرف منسوب کیا گیا ہے البتہ اذن و فرمانِ خدا کے ساتھ۔
اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات عین ممکن ہے کہ خداوند تعالیٰ عالم تکوین میں تصرف کرنے کے لیے اس قسم کی قدرت کسی شخص کے اختیار میں دے دے کہ وہ کبھی اس قسم کے اعمال انجام دے لیا کرے اور اس آیت کی تفسیر انبیاء کے دعا کرنے اور خدا کی طرف سے ان کی دعا قبول ہونے کے ساتھ کرنا مکمل طور پر ظواہر آیات کے خلاف ہے ۔ البتہ اولیاء خدا کی ولایت تکوینی سے ہماری مراد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسے ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں ۔ کیونکہ اس مقدار سے زیادہ کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ مزید و ضاحت کے لیے جلد دوم کی طرف رجوع کریں ۔
۱۱۱ وَإِذْ اٴَوْحَیْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّینَ اٴَنْ آمِنُوا بِی وَبِرَسُولِی قَالُوا آمَنَّا وَاشْھَدْ بِاٴَنَّنَا مُسْلِمُونَ
۱۱۲ إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ اٴَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ-
۱۱۳ قَالُوا نُرِیدُ اٴَنْ نَاٴْکُلَ مِنْھَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ اٴَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْھَا مِنْ الشَّاھِدِینَ-
۱۱۴ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اٴَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاٴَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاٴَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ-
۱۱۵ قَالَ اللهُ إِنِّی مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإِنِّی اٴُعَذِّبُہُ عَذَابًا لاَاٴُعَذِّبُہُ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ-
ترجمہ
۱۱۱۔اور وہ وقت یاد کرو جب میں نے حواریون کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے بھیجے ہوئے پر ایمان لاؤ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں ۔
۱۱۲۔وہ وقت کہ جب حواریون نے یہ کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تیرا پروردگار آسمان سے مائدہ نازل کرسکتا ہے تو اُس نے (جواب میں) کہا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اللہ سے ڈرو ۔
۱۱۳۔وہ کہنے لگے (ہم یہ بات بُری نیت سے نہیں کہتے بلکہ) ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل (آپ کی رسالت پر) مطمئن ہوجائیں اور ہم جان لیں کہ تونے ہم سے سچی بات کہی ہے اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں ۔
۱۱۴۔عیسیٰ (علیه السلام) نے عرض کیا: اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما،تا کہ وہ ہمارے اوّل و آخر کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں روزی عطا فرما، تو بہترین روزی دینے والا ہے ۔
۱۱۵۔خداوند تعالیٰ نے (اس کی دعا قبول فرمالی اور) کہا: میں اُسے تم پر نازل کروں گا، لیکن جو شخص تم میں سے اس کے بعد کافر ہوجائے گا (اور وہ انکار کی راہ اختیار کرے گا) اُسے میں ایسی سزادوں گا کہ عالمین میں سے ویسی سزا کسی کو نہ دی ہوگی۔

 

 

 

 
۱۔ تفسیر نمونہ،( اردو ترجمہ) ج۱، ص۳۶۰-
 
اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا حواریوں پر مائدہ کے نزول کا واقعہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma