حالت احرام میں شکار کرنے کے احکام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح بجالائیں حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کا فلسفہ

یہ آیات عمرہ اور حج کے احکام میں سے ایک حکم یعنی حالت احرام میں صحرائی اور دریائی جانوروں کے شکار کا مسئلہ بیان کرتی ہیں، پہلے تو اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جس کا ”حدیبیہ“ والے سال مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا تھا ارشاد ہوتا ہے: ”اے ایمان والو! خدا تمھیں شکار میں سے ایک چیز کے ساتھ آزمائے گا، ایسے شکار جو تمھارے اس قدر نزدیک ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ تم نیزہ اور ہاتھ کے ساتھ انھیں شکار کرسکتے ہو (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَیَبْلُوَنَّکُمْ اللهُ بِشَیْءٍ مِنْ الصَّیْدِ تَنَالُہُ اٴَیْدِیکُمْ وَرِمَاحُکُمْ ) ۔
آیت کی تعبیر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ پیش بینی کے طور پر لوگوں کو ایک ایسے واقعہ سے جو انھیں پیش آنے والا تھا آگاہ کرے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام شکار کا وہاں کے لوگوں کے ہاتھوں کی پہنچ میں آجانا ایک ایسا امر تھا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور یہ مسلمانوں کے لئے ایک قسم کی آزمائش تھی خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے جانوروں کے گوشت سے غذا مہیا کرنے کی اُنھیں ضرورت بھی تھی۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ جانور وسوسہ انگیزی کی صورت میں خیموں کے اطراف میں اور ان کے گرداگرد آتے جاتے تھے، اس قسم کی میسّر غذا سے محروم رہنا، وہ بھی اس زمانے اور وقت میں ایسے لوگوں کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی ۔
بعض نے کہا ہے کہ اس جملہ سے مراد کہ ”تمھارے ہاتھ سے شکار کے قابل ہوں گے“ یہ ہے کہ وہ انھیں جال وغیرہ سے پکڑ سکتے تھے لیکن آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ حقیقتاً ان کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ خود ہاتھ سے انھیں پکڑسکتے تھے ۔
اس کے بعد تاکید کے طور پر فرمایا ہے: یہ ماجرا اس لئے ہوا تھا کہ وہ لوگ جو ایمان بالغیب کی بناپر خدا سے ڈرتے ہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوجائیں
(لیعلم اللّٰہ من یخافہ بالغیب) ۔
جیسا کہ ہم جلد اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کے ذیل میں کہہ چکے ہیں کہ ”لنعلم“تاکہ ہم جان لیں یا”لیعلم“ ”تاکہ خدا جان لے“وغیرہ جیسی تعبیرات سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا کسی چیز کو جانتا نہیں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ آزمائش اور امتحان وغیرہ کے ذریعہ سے جان لے ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم چاہتے کہ اپنی واقعیتِ علمی کو عملی جامہ اور متحققِ خارجی کا لباس پہنائیں کیونکہ باطنی نیتیں اور لوگوں کی آمادگیاں، تکامل وار تقا، اور جزا و سزا کے لئے اکیلی ہی کافی نہیں ہیں بلکہ انھیں خارجی افعال کی شکل میں ظہور پذیر ہونا چاہیے تاکہ وہ ان آثار کے حامل ہوسکیں (مزید وضاحت کے لئے مذکورہ آیت کی تفسیر کی طرف رجوع کیجئے) ۔
آیت کے آخر میں اُن اشخاص کو کہ جو اس خدائی حکم کی مخالفت کرتے ہیں درناک عذاب کی تہدید کی گئی ہے
(فَمَنْ اعْتَدیٰ بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ) اگر چہ آیت کا آخری جملہ اجمالی طور پر حالت احرام میں شکار کی حرمت پر دلالت کرتا ہے لیکن بعد والی آیت میں مزید صراحت اور قطعیت کے ساتھ اور بطور عموم حالت احرام میں شکار کے حرام ہونے کا حکم صادر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے: ”اے ایمان لانے والو! حالت احرام میں شکار نہ کرو“ (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاٴَنْتُمْ حُرُمٌ) ۔
کیا شکار کی حرمت (جو بعد والی آیت کے قرینہ کے ساتھ صحرائی شکار ہے) صحرا کی تمام اقسامِ شکار پر محیط ہے چاہے وہ حلال گوشت ہوں یا حرام گوشت یا حلال گوشت شکار سے مخصوص ہے ۔
مفسّرین اور فقہا کے درمیان اس سلسلے میں کوئی ایک نظریہ نہیں ہے ۔
تا ہم فقہا و مفسّرین امامیہ میں مشہور یہ ہے کہ حکم عام ہے اور جو روایات اہلِ بیت علیہم السلام کے طریق سے وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں بعض فقہائے اہل سنت مثلاً ابوحنیفہ ہمارے ساتھ اس سلسلے میں متفق ہیں مگر دوسرے بعض مثلاً شافعی اسے حلال گوشت جانوروں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں بہرحال یہ حکم گھریلو جانوروں کے بارے میں نہیں ہے کیونکہ گھریلو جانوروں کو صیدو شکار نہیں کہا جاتا ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہماری روایات میں نہ صرف یہ کہ حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے بلکہ اس میں مددکرنا، اشارہ کرنا اور شکار کی نشاندہی کرنا بھی حالت احرام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔
ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ یہ تصور کریں کہ صید وشکار کا مفہوم حرام گوشت جانوروں پر محیط نہیں ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ جانوروں کا شکار مختلف مقاصد کے لئے انجام پاتا ہے ۔ بعض اوقات مقصود اُن کے گوشت سے فائدہ اٹھاناہوتا ہے، بعض اوقات ان کی کھال سے نفع حاصل کر نے لئے ہو تا ہے اور بعض اوقات ان کی مزاحمت کو دور کرنے لئے ہوتاہے ۔وہ مشہور شعر جو حضرت علی علیہ اسلام سے منقول ہے وہ بھی عمومیت کا مشاہدہ بن سکتا ہے، آپ فرماتے ہیں:
صید العلوک ارانب و ثعالب و اذا رکبت فصیدی الا بطال
بادشاہوں کے شکار خرگوش اور لومڑیاں ہیں لیکن میرا شکار، جب میں میدان جنگ میں وارد ہوتا ہوں تو شجاع اور بہادر ہوتے ہیں ۔
(مزید وضاحت کے لئے فقہی کتب کی طرف رجوع کیا جائے) ۔
اس کے بعد حالت احرام میں شکار کرنے کے کفارہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جو شخص جان بوجھ کر شکار کو قتل کردے تو اُسے چاہیے کہ چوپاؤں میں سے اُن جیسے جانور کفارہ میں دے یعنی انھیں قربانی کرکے ان کا گوشت فقراء ومساکین کو دے
(وَمَنْ قَتَلَہُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ )
یہاں مثل سے مراد کیا ہے؟ کیا شکل وصورت اور مقدار میں ایک جیسا ہونا، اس معنی میں کہ مثلاً اگر کوئی شخص کسی بڑے وحشی جانور مثلاً شتر مرغ کو شکار کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس کا کفارہ اونٹ کی صورت میں دے؟ یا اگر ہرن کا شکار کرتا ہے تو کفارہ کے لئے بھیڑ بکری کی قربانی دے جو تقریباً جیسی ہے؟ یا یہ کہ مثل سے مراد قیمت میں ایک جیسا ہونا ہے؟
فقہا اور مفسّرین میں پہلا معنی ہی مشہور ہے اور آیت کا ظاہری مفہوم بھی اسی کے مطابق ہے، کیونکہ حلال گوشت اور حرام گوشت کے حکمِ عمومی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو بہت سے جانور ایسے ہیں جن کی قیمت ثابت ومشخص نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ اُن جیسے گھریلو جانوروں کا انتخاب کیا جاسکے اور اس کا مثل شکل وصورت اور مقدار کے مطابق ہی مل سکے ورنہ دوسری صورت میں تو اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں کہ کسی طرح سے اس شکار کی قیمت معیّن کی جائے اور اُس کا مثل قیمت کے لحاظ سے حلال گوشت گھریلو جانوروں میں سے انتخاب کریں، ممکن ہے کہ بعض اوقات مثل کے معاملے میں کوئی شک وتردید ہوجائے لہٰذا قرآن نے حکم دیا ہے کہ یہ کام دو باخبر اور عادل افراد کے زیرِنظر انجام پذیر ہو
(یَحْکُمُ بِہِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ) ۔
اس سلسلے میں کہ یہ قربانی کہاں ذبح ہو، حکم دیتا ہے کہ وہ قربانی اور ”ھدی“ کی صورت میں کعبہ کا ہدیہ بنایا جائے اور سرزمین کعبہ میں پہنچے

 

 (ھَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَةِ ) ۔ ضمنی طور توجہ رہے کہ ہمارے فقہا کے درمیان مشہور ہے کہ احرام عمرہ کی حالت میں شکار کا کفارہ مکہ میں ذبح ہونا چاہیے اور احرام عمرہ کی حالت میں منیٰ اور قربان گاہ میں اور یہ بات اُوپر والی آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ آیت، احرام عمرہ کی حالت میں نازل ہوئی ہے، اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ ضروری نہیں ہے حتماً کفارہ قربانی کی صورت میں ہو بلکہ دو اور چیزوں میں سے بھی ہر ایک اُس کی جانشین ہوسکتی ہے، پہلا یہ کہ اُ س کے برابر رقم مساکین کو کھانا کھلانے میں صرف کی جائے (اٴَوْ کَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاکِینَ )یا اُس کے مساوی روزے رکھے

 

(اٴَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا ) ۔
اگرچہ آیت میں اُن مساکین کی تعداد جنھیں کھانا کھلایا ہے بیان نہیں ہوئی اور نہ ہی روزوںکے دنوں کی تعداد بتائی گئی ہے لیکن ایک طرف سے ان دونوں کا ایک دوسرے سے ساتھ ہونا اور دوسری طرف یہ صراحت کہ روزوں کے درمیان موازنہ ضروری ہے، نشاندہی کرتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جتنے مسکینوں کو وہ کھانا کھلانا چاہے کھلادے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قربانی کی قیمت کے برابر ہونا چاہیے، باقی رہا یہ کہ روزہ اور مسکین کو کھانا کھلانے کے درمیان تعادل وبرابری کس طرح قائم ہو تو بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک ”مد“ طعام کے مقابلہ میں ایک روزہ رکھے ۔ یہ حقیقت میں اس بناپر ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں جو اشخاص روزہ پر قدرت نہیں رکھتے تو وہ ہر دن کے بدلے میں ایک یا دو مد کھانا مساکین کوکھلائیں (اس امر کے بارے میں مزید وضاحت فقہی کتب میں ملاحظہ فرمائیں) ۔
اس بارے میں کہ وہ شخص جو حالت احرام میں شکار کا مرتکب ہوا ہے کیاوہ ان تین چیزوں میں سے جس کو چاہے کرلے یا اُسے ترتیب کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ پہلے تو اُسے قربانی کرنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو مساکین کو کھانا کھلائے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر روزہ رکھے ۔ اس سلسلہ میں مفسّرین اور فقہا کے درمیان اختلاف ہے لیکن آیت کا ظاہر اختیار کا معنی دیتا ہے ۔ یہ کفارے تو اس بناپر ہیں کہ وہ اپنے غلط کام کی سزا اور انجام دیکھ لےں
(لِیَذُوقَ وَبَالَ اٴَمْرِہِ)(۱) ۔
اور اس بناپر کہ عموماً کوئی حکم بھی گذشتہ امور کو شامل نہیں ہوتا صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ خدا نے اُن غلط کاریوںکو جو اس سلسلے میں گذشتہ زمانے میں تم نے انجام دی ہیں معاف کردیتا ہے(عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَف) ۔
اور جو شخص ان بار بار کے اظہار کے خطر اور کفارہ کے حکم کی پروا نہ کرے اور پھر بھی حالت احرام میں شکار کا مرتکب ہو تو خدا ایسے شخص سے انتقام لے گا اور خدا توانا وصاحب قدرت ہے اور برمحل انتقام لیتا ہے
(وَمَنْ عَادَ فَیَنتَقِمُ اللهُ مِنْہُ وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ) ۔
مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا شکارکا کفارہ دوبارہ شکار کرنے سے دوگناہ ہوتا ہے یا نہیں ؟تو آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ تکرار کی صورت میں صرف انتقال الٰہی کی تہدید اور دھمکی ہی دی گئی ہے اور اگر کفارہ کا تکرار بھی ہوتا تو صرف انتقال الٰہی کے ذکر پر اکتفانہ کی جاتی اور تکرار کفارہ کی تصریح بھی ہوتی ۔ ان روایات میں جواہل بیت علیہم السلام کے طریق سے ہم تک پہنچی ہیں یہی بات بیان کی گئی ہے ۔
بعد والی آیت میں دریائی شکار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے:(حالت احرام میں) دریائی شکار اور اسے کھانا تمھارے لئے حلال ہے

 

(اٴُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہُ) ۔
اس بارے میں کہ طعام اور کھانے سے کیا مراد ہے؟مفسّرین نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس سے مراد وہ مچھلیاں ہیں جو شکار کیے بغیر مرجاتی ہیں اور پانی کے اُوپر رہ جاتی ہیں، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مردہ مچھلی کا کھانا حرام ہے، اگرچہ اہلِ سنت کی بعض روایات میں ان کے حلال ہونے کی صراحت موجود ہے ۔
آیت کے ظاہری مفہوم سے جو بات زیادہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ طعام سے مراد وہی خوراک ہے کہ جو شکار شدہ مچھلیوں سے تیار کی جاتی ہے کیونکہ آیت دو امور کو جائز قرار دے رہی ہے پہلے شکار کرنا اور دوسرے شکار شدہ کھانا کھانا ۔
ضمناً اس تعبیر سے اس معروف فتویٰ کے لئے بھی اجمالی طور پر استفادہ ہوتا ہے جو ہمارے فقہا کے درمیان موجود ہے اور جو برّی (وصحرائی) جانوروں کے بارے میں ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف انھیں شکار کرنے کا اقدام حرام ہے بلکہ شکار شدہ جانور کا گوشت کھانا بھی جائز نہیں ہے ۔
اس کے بعد اس حکم کے فلسفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ اس بناپر ہے کہ تم اور مسافر اس سے فائدہ اٹھاسکیں
(مَتَاعًا لَکُمْ وَلِلسَّیَّارَةِ) ۔
یعنی اس غرض سے کہ تم حالت احرام میں کھانے کے لئے زحمت ومشقت میں نہ پڑو اور ایک قسم کے شکار سے فائدہ اٹھا سکو یہ اجازت تمھیں دریائی شکار کے بارے میں دی جاتی ہے ۔
اور چونکہ عموماً اگر مسافر یہ چاہیں کہ شکار شدہ مچھلی اپنے ساتھ لے جائیں تو اس میں نمک ملاکر اُسے ”ماہی شور“ کی صورت میں تیار کرلیتے ہیں ۔ بعض مفسّرین نے مندرجہ بالا جملے کی اس طرح کی تفسیر کی ہے کہ مقیم افراد تازہ مچھلی سے اور مسافر نمک لگی مچھلی سے استفادہ کریں ۔
ہم نے درج بالا آیت میں یہ پڑھا ہے کہ دریائی شکار تمھارے لئے حلال ہے ۔ یہاں اشتباہ نہیں ہونا چاہیے ، اس کا مفہوم دریائی شکاروں کے بارے میں ایک عمومی حکم نہیں ہے، جیسا کہ بعض نے خیال کرلیا ہے ۔ آیت یہاں پر دریائی شکاروں کا اصل حکم بیان کرنا نہیں چاہتی، بلکہ آیت کا مقصد وہدف یہ ہے کہ وہ احرام باندھے ہوئے شخص کو اس بات کی اجازت دے کہ دریا کے دو شکار جو احرام سے پہلے حلال تھے احرام کی حالت میں بھی وہ اُس سے استفادہ رکرسکتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں آیت یہاں اصل تشریعِ قانون بیان نہیں کررہی بلکہ اِس کی نظر اُن قانونی خصوصیات کی طرف ہے جو پہلے سے تشریع ہوچکا ہے ۔ اصطلاح میں یہ بیان حکمِ عمومی کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ آیت صرف محرم کے احکام بیان کررہی ہے ۔
مگر دوسری مرتبہ تاکید کے طور پر حکم سابق کی طرف لوٹتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جب تک تم حالت احرام میں ہو صحرائی اور وحشی جانوروں کا شکار تم پر حرام ہے
(وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا) ۔
آیت کے آخر میں اُن تمام احکام کی تاکید کے لئے جو ذکر ہوچکے ہیں فرماتا ہے: اس خدا سے ڈرو جس کی بارگاہ میں تمھیں قیامت کے دن محشور ہونا ہے
(وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیْہِ تُحْشَرُون) ۔

 

 

 
۱۔وبال جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے: اصل میں ”وبل“ اور ”وابل“ سے سخت بارش کے معنی میں ہے ۔ اس کے مشکل، شاق اور سخت کام پر بھی بولا جانے لگا اور چونکہ سزا وعذاب میں بھی شدت اور سختی ہوتی ہے اسے وبال کہتے ہیں ۔
وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح بجالائیں حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کا فلسفہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma