۴۔ ”اٴَوْ مَا مَلَکْتُمْ“ کی تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۳۔ ”صدیق“ سے کون مراد ہے؟۵۔ سلام وتحیّت
متعدد شانہائے نزول میں آیا ہے کہ صدر اسلام میں جب مسلمان جہاد پر جاتے تھے تو کبھی کبھار اپنے گھر کی چابی ایسے افراد کو سونپ جاتے ہیں جومعذور ہونے کے باعث جہاد پر نہیں جاسکتے تھے، یہاں تک کہ انھیں یہ اجازت دے جاتے تھے کہ گھر میں موجود غذا بھی کھا سکتے ہیں اور لیکن وہ کبھی اس خوف کہ کہیں گناہ نہ ہو کھانے سے اجتناب کرتے تھے ۔
ان روایات کے مطابق ”اٴَوْ مَا مَلَکْتُمْ“(وہ گھر کہ جن کی چابیوں کے تم مالک ہو) سے یہی مراد ہے (1) ۔
ابن عبّاس سے بھی منقول ہے کہ اس سے مراد انسان کا وکیل اور نمائندہ ہے اور یہ وکالت پانی، جائداد، زراعت اور پالتو جانوروں میں ہوتی ہے، اس نمائندے کو اجازت دی گئی ہے کہ باغ کے پھلوں میں سے ضرورت کے مطابق کھالے اور جانوروں کا دودھ پی لے ۔
بعض نے اس سے گودام کا نگران مراد لیا ہے کہ جو حق رکھتا ہے کہ وہ غذا میں سے کھالے ۔
لیکن جن لوگوں کے نام اس آیت میں لئے گئے ہیں انھیں نظر میں رکھیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ افراد ہیں کہ جنھیں ان کے قریبی عزیز اعتماد اور تعلق کی بناء پر اپنے گھر کی چابی سپرد کردیتے ہیں، یہ قریبی ربط وتعلق اس بات کا سبب بنا کہ رشتہ داروں اور دوستوں کی فہرست میں انھیں بھی شمار کیا جائے ۔
بعض روایات کے مطابق اس سے مراد وہ وکیل ہے کہ جسے اوال کی سرپرستی سونپی جاتی ہے، یہ تفسیر در حقیقت اس جملے کا ایک مصداق ہے ۔
1۔ تفسیر قرطبی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں (وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۴۳۶، باب۲۴، از ابواب مائدہ میں بھی اس مضمون کی حدیث موجود ہے) ۔
۳۔ ”صدیق“ سے کون مراد ہے؟۵۔ سلام وتحیّت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma