جن گھروں میں جاکر کھانا کھانا جائز ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 61 ۱۔ کیا کسی کے ہاں سے کھانا کھانے کے لئے اجازت شرط نہیں؟
گزشتہ آیات میں معین اوقات میں طا مطلق طور پر ماں باپ کے خصوصی کمرے میں داخل ہوتے وقت اجازت کے بارے میں بات کی گئی ٹھی، زیرِ بحث آیات میں در حقیقت ایک استثنائی پہلو پر بات کی گئی ہے، اس میں ان رشتے داروں اور دیگر لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جن کے ہاں خاص حالات میں جایا جاسکتا ہے اور اخراجات لیے بغیر کھانا کھایا جاسکتا ہے ۔
ارشاد فرمایا گیا: اندھے، لنگڑے اور بیمار اشخاص کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ تمھارے ساتھ مل کر کھاپی لیں (لَیْسَ عَلَی الْاٴَعْمَی حَرَجٌ وَلَاعَلَی الْاٴَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَاعَلَی الْمَرِیضِ حَرَجٌ) ۔
بعض روایات میں ہے کہ قبول اسلام سے پہلے اہلِ مدینہ اندھے، لنگڑے اور بیمار افراد کو اپنے دسترخوان پر بیٹھنے سے منع کرتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھاتے تھے، انھیں اس کام سے نفرت تھی، ظہور اسلام کے بعد کچھ لوگ ایسے افراد کو الگ کھانا کھلاتے تھے البتہ اس بناپر نہیں کہ ان کے ساتھ کھانا کھانے سے نفرت کرتے تھے بلکہ اس بناء پر کہ شاید نابینا شخص کھانے کو اچھی طرح نہ دیکھ سکے اور یہ خود تو کھالیں مگر وہ نہ کھاسکے اور اسے وہ خلافِ اخلاق ومروّت سمجھتے تھے، اسی طرح لنگڑے اور بیمار افراد کے بارے میں اس خیال سے کہ ہوسکتا ہے وہ کھانا کھانے میں پیچھے رہ جائیں اور جو لوگ صحیح وسالم ہیں وہ کھاپی لیں بہرحال جو بھی وجہ تھی ان کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھاتے تھے، اس بناء پر، اندھے، لنگڑے اور بیمار افراد بھی اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھتے تھے اس خیال سے کہ ہوسکتا ہے وہ دوسروں کے لئے باعث زحمت ہوں اور اس زحمت دینے کو وہ اپنے لئے گناہ تصور کرتے تھے ۔
اس سلسلے میں رسول الله سے سوال ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور یہ واضح کیا گیا کہ اگر یہ افراد تمھارے ساتھ مل کر کھانا کھائیں تو کوئی حرج نہیں(1) ۔
البتہ اس جملے کی تفسیر میں مفسرین نے دیگر تفسیریں بھی ذکر کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ افراد حکمِ جہاد سے مستثنیٰ ہیں ۔
ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ تمھیں اجازت ہے کہ ایسے معذور اور ناتواں افراد کو اپنے ساتھ ان گیارہ گھروں میں لے جاوٴ کہ جن کا ذکر آیت میں آیا ہے اور یہ کہ وہ بھی وہاں سے کھانا کھائیں ۔
لیکن یہ دونوں تفسیریں بہت بعید معلوم ہوتی ہیں اور آیت کے ظاہری مفہوم سے ہم آہنگ نہیں ہیں (غور کیجئے گا) ۔
اس کے بعد قرآن مجید مزید کہتا ہے: تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ اپنے گھروں سے جہاں تمھاری اولاد یا بیویاں رہتی ہیں کہ جو تمھارے اپنے گھر شمار ہوتے ہیں کھاپی لو (وَلَاعَلیٰ اٴَنفُسِکُمْ اٴَنْ تَاٴْکُلُوا مِنْ بُیُوتِکُمْ) ۔
یا اپنے باپ داد کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ آبَائِکُمْ) ۔
یا اپنے ماوٴں کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ اٴُمَّھَاتِکُمْ) ۔
یا اپنے بھائیوں کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ إِخْوَانِکُمْ) ۔
یا اپنی بہنوں کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ اٴَخَوَاتِکُمْ) ۔
یا اپنے چچوں کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ اٴَعْمَامِکُمْ) ۔
یا اپنی پھوپھیوں کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ عَمَّاتِکُمْ) ۔
یا اپنے مامووٴں کے گھر سے (اٴَوْ بُیُوتِ اٴَخْوَالِکُمْ) ۔
یا اپنی خالاوٴں کے گھر سے ( اٴَوْ بُیُوتِ خَالَاتِکُمْ) ۔
یا اُن گھروں سے جن کی چابی تمھارے پاس ہے (اٴَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَفَاتِحَہُ) ۔
یا اپنے دوستوں کے گھر سے (اٴَوْ صَدِیقِکُمْ) ۔
البتہ اس حکم کی کچھ شرائط اور توضیحات ہیں جنھیں ہم بعد میں ذکر کریں گے ۔
اس کے بعد سلسلہٴ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے: تمھارے لئے کوئی مضائقہ نہیں کہ مل کر کھاوٴ یا الگ سے (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَاٴْکُلُوا جَمِیعًا اٴَوْ اٴَشْتَاتًا) ۔
گویا بعض مسلمان ابتدائے اسلام میں علیحدہ علیحدہ کھانا کھانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اگر انھیں کوئی ساتھ مل کر کھانا کھانے والا نہ ملتا تو بعض اوقات عرصے تک بھوکے رہتے، قر آن انھیں تعلیم دیتا ہے کہ اجتماعی صورت میں بھی اور الگ سے بھی ہر دو طرح سے کھانا کھانا جائز ہے (2) ۔

بعض نے کہا یہ بھی کہا ہے کہ بعض عربوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ مہمان کا کھانا احترام کے طور پر الگ لے کر جاتے تھے اور خود اس کے ساتھ مل کر نہیں کھاتے تھے(تاکہ کہیں وہ شرمندگی محسوس نہ کرے اور آزادی سے نہ کھاسکے) ۔ آیت نے ان پابندیوں کو ختم کردیا اور انھیں تعلیم دی کہ یہ کوئی اچھی رسم نہیں ہے(3)۔
بعض نے کہا ہے کہ کچھ مالدار ایسے تھے کہ جو غریب لوگوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے اور طبقاتی فاصلہ دسترخوان تک پر ملحوظ رکھتے تھے، قرآن نے اس آیت میں اس ظالمانہ روش کی نفی کی ہے(4) ۔
لیکن کوئی حرج نہیں کہ آیت کے پیش نظر یہ تمام امور ہوں ۔
اس کے بعد معاشرتی اخلاق کے بارے میں ایک اور حکم ہے، ارشاد ہوتا ہے: جب تم کسی گھر میں داخل ہوتے ہو تو اپنے اوپر سلام کرو، الله کی طرف سے مبارک وپاکیزہ سلام وتحیّت (فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوا عَلیٰ اٴَنفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبَارَکَةً طَیِّبَةً) ۔
ان ”بیوت“ سے کونسے گھر مراد ہیں؟ بعض مفسرین مذکورہ بالا گیارہ گھروں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں، بعض دوسرے مفسرین نے ”بیوت“ سے مسجدیں مراد لیا ہے ۔
لیکن واضح ہے کہ آیت مطلق ہے اور ا س سے تمام گھر مراد ہوسکتے ہیں چاہے وہ مذکورہ گیارہ گھروں ہوں کہ جن میں آدمی کھانے کے لئے جاتا ہے یا دیگر رشتے داروں اور دوستوں کے گھر کیونکہ آیت کے وسیع مفہوم کو محدود کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں موجود نہیں ہے ۔
رہا یہ سوال کہ اپنے اوپر سلام کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں بھی متعدد تفاسیر نظر آتی ہیں:
بعض نے کہا ہے کہ اس سے کچھ افراد کا دوسروں کو سلام کرنا ہے جیسا کہ سورہٴ بقرہ آیت ۵۴ کے مطابق بنی اسرائیل کے واقعے میں ہے:
<فاقتلوا انفسکم
”تم ایک دوسرے کو سزا کے طور پر قتل کرو“۔
بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد بیوی بچوں اور اہل خانہ کو سلام کرنا ہے، کیونکہ وہ انسان کی اپنی ذات ہی کی طرح ہیں اس لئے انھیں ”انفس“ کہا گیا ہے آیتِ مباہلہ (کو جو آل عمران کی اکسٹھویں آیت ہے) میں بھی یہ تعبیر دکھائی دیتی ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص دوسرے سے اس قدر نزدیک ہوجاتا ہے گویا خود اس کا نفس ہوگیا یعنی وہی ہوگیا ہو جیسے حضرت علی علیہ السلام رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے انتہائی قریب تھے اور ان کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا۔
بعض نے کہا ہے اس سے مراد وہ گھر ہیں کہ جن میں کوئی نہیں رہتا تو انسان کو چاہئے کہ ان میں داخل ہوتے وقت اپنے آپ کو سلام کرے:
”السلام علینا من قبل ربّنا“
”ہم پر ہمارے پروردگار کی طرف سے سلام ہو“۔
یا ان الفاظ میں سلام کرے:
”السلم علینا وعلیٰ عباد الله الصالحین“
”ہم پر سلام ہو اور الله کے نیک بندوں پر سلام ہو“۔
ہماری رائے یہ ہے کہ ان تفاسیر میں کوئی باہمی تضاد نہیں ہے، ہر گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا چاہیے، اہلِ خانہ ایک دوسرے کو سلام کریں، مومنین ایک دوسرے کو سلام کریں اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو پھر اپنے اوپر سلام کریں، کیونکہ ہر سلام کا نتیجہ در حقیقت اپنے ہی اوپر سلام ہے ۔
اسی لئے امام باقر علیہ السلام سے ایک حدیث مروی ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں آپ علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو فرمایا:
”ھو تسلیم الرجل علیٰ اٴھل البیت حین یدخل ثمّ یردّون علیہ فھو سلامکم علیٰ انفسکم“.
”اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی گھر میں داخل ہو تو اہلِ خانہ کو سلام کرے، وہ جواب سلام دیں گے اور اس پر سلام کریں گے اور یہ گویا تمھارا خود اپنے اوپر سلام کرنا ہے (5) ۔
امام باقر علیہ السلام ہی سے مروی ہے کہ فرمایا:
”اذا دخل الرجل منکم بیتہ فان کان فیہ اٴحدیسلم علیہ، وان لم یکن فیہ اٴحد فلیقل السلام علینا من عند ربّنا یقول الله عزّوجل تحیّة من عند الله مبارکة طیّبة“.
”تم سے سے جب کوئی اپنے گھر میں داخل ہو، اگر اس میں کوئی موجود ہے تو اس پر سلام کرے اور اگر کوئی نہ ہو تو کہے: ہم پر ہمارے پروردگار کی طرف سے سلام، جیسا کہ الله نے قرآن میں فرمایا ہے: الله کی طرف سے مبارک وپاکیزہ تحیت وسلام“(6) ۔
1۔ تفسیر درالمنثور، تفسیر نور الثقلین، زیر بحث آیت کے ذیل میں، ان کے علاوہ بھی بعض مفسرین نے اپنی تفسیر میں یہ روایت درج کی ہے مثلاً طبرسی نے مجمع البیان میں، مرحوم فیض نے تفسیر صافی میں، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں، شیخ طوسی نے تبیان میں اے درج کیا ہے ۔
2تفسیر تبیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
3 ۔ تفسیر تبیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
4 ۔ تفسیر تبیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
5 ۔ نور الثقلین، ج۳، ص۶۲۷.
6۔ نور الثقلین، ج۳، ص۶۲۷.
سوره نور / آیه 61 ۱۔ کیا کسی کے ہاں سے کھانا کھانے کے لئے اجازت شرط نہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma