سیطوی نے ”اسباب النزول“ میں، طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں، سید قطب نے ”فی ظلال “
میں، قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور اسی دطرح دیگر کئی ایک مفسرین نے (تھوڑے سے فرق
کے ساتھ) اس آیت کی یہ شان نزول بیان کی ہے:
جب رسول الله اور مسلمانوں نے مدینے کی طرف ہجرت کی اور انصار نے خندہ پیشانی سے
انھیں خوش آمدید کہا تو تمام عرب ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ مسلمان
مجبور ہوگئے کہ ہر وقت اسلحہ اپنے ساتھ رکھیں رات کو اسلحہ پاس رکھ کر سوئیں، صبح
اٹھیں تو اسلحہ ساتھ لے کر اٹھیں اورہر وقت مستعد رہیں، اس حالت کا جاری رکھنا
مسلمانوں کے لئے بہت مشکل تھا، بعض نے تو کھلے بندوں اس بات کا اظہار کیا کہ آحر یہ
کیفیت کب تک باقی رہے گی کیا ایسا وقت بھی آئے گا ہم رات ہی کو چین کا سانس لے سکیں
گے اور الله کے علاوہ ہم کسی سے نہ ڈریں ۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی او انھیں بشارت دی گئی کہ ہاں ایسا زمانہ آئے گا(۱) ۔
1۔ اسباب النزول، ۱۶۳۲، مجمع البیان، تفسیر قرطبی اور تفسیر فی ظلال، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔