حق پر ایمان اور تسلیمِ کامل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 51 - 54سوره نور / آیه 55

گزشتہ آیات میں سیاہ دل مافقین کا حال بتایا گیا تھا کہ جو تہ در تہ اندھیروں میں ہیں اور ”بعضھا فرق بعض“ کا مصداق ہیں اور ہم نے دیکھا کہ الله اور اس کے رسول کے منصفانہ فیصلے سے کیسے روگردانی کرتے ہیں گویا انھیں خوف ہے کہ الله اور سول ان کے حق کو پامال کردیں گے ۔
زیرِ نظر آیات منافقین کے مقابلے میں مومنین کی کیفیت بیان کررہی ہیں کہ خدائی فیصلے پر ان کا درّعمل کیا ہوتا ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے: جب مومنین کو الله اور رسول کے فیصلے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ صرف ایک ہی بات کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی (إِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَی اللهِ وَرَسُولِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اٴَنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَاٴَطَعْنَا) ۔
کیا عمدہ بات ہے ”سَمِعْنَا وَاٴَطَعْنَا“ (ہم نے سنا اور اطاعت کی) مختصر اور معنی خیز انداز ہے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ یہاں لفظ ”انّما“ استعمال ہوا ہے کہ جو حصر کے لئے ہے یعنی اس کے علاوہ ان کی کوئی بات ہی نہیں اور سر تا پا ان کی یہی کیفیت ہے اور سچ مچ حقیقت ایمان یہی ہے کہ ”سَمِعْنَا وَاٴَطَعْنَا“۔
جو شخص یہ ایمان رکھتا ہے کہ الله ہر چیز کا عالم ہے، وہ ہر شخص سے بے نیاز ہے اور تمام بندوں کے لئے رحیم اور مہربان ہے تو وہ الله کے فیصلے پر کسی اور کے فیصلے کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے اور کیونکر ممکن ہے کہ وہ الله کے فیصلے پر اس کے سوا کچھ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، یہ کیسی عظیم ازمائش اور مومنین کی کامیابی کی کیا ہی عمدہ راستہ ہے ۔
لہٰذا آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: حقیقتاً فلاح ویافتہ اور کامیاب یہی لوگ ہیں (وَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنی باگ ڈور الله کے حوالے کردے، اسے حاکم اور جج مان لے وہ ہر چیز میں کامیاب ہے مادی زندگی میں بھی اور روحانی زندگی میں بھی۔
دوسری آیت میں اسی حقیقت کو عمومی شکل دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جو لوگ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، الله سے ڈریں اور تقویٰ کو اپنا شعار بنائی وہی نجات پانے والے اور کامیاب ہیں (وَمَنْ یُطِعْ اللهَ وَرَسُولَہُ وَیَخْشَ اللهَ وَیَتَّقِیہِ فَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْفَائِزُونَ)(۱)۔
اس آیت میں فرماں بردار اور پرہیزگار افراد کو ”فائزون“ کہا گیا ہے جبکہ گذشتہ آیت میں الله اور اس کے رسول کا فیصلہ ماننے والوں کو ”مفلحون“ کہاگیا ہے، لغت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ”فوز“ اور ”فلاح“ تقریباً ہم معنیٰ ہیں، مفردات میں راغب نے کہا ہے:
”فوز“ کا معنی ہے سلامتی کے ساتھ کامیابی اور اچھے انجام تک پہنچانا اور ”فلاح“ کا معنیٰ ہے کامیابی اور مقصود تک پہنچنا۔
البتہ بنیادی طور پر ”فلاح“ چیرنے کے معنیٰ میں ہے، کامیاب افراد چونکہ رکاوٹوں کو چیر کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا ”فلاح“ کامیابی کے معنیٰ میں بھی استعمال ہونے لگا۔
بعد والی آیت میں مطلق فرمانبرداری کے بارے میں بات کی گئی ہے اور پہلی آیت میں خدائی فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا ذکر ہے، اس لحاظ سے عمومی اور کلّی مفہوم کا حامل ہے جبکہ دوسرا لفظ مخصوص معنی کے لئے اس لحاظ سے دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہونا چاہیے ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ بعد والی آیت میں ”فائزون“ کے تین اوصاف ذکر ہوئے ہیں ۔
۱۔ الله اور رسول کا اطاعت
۲۔ خوفِ خدا
۳۔ تقویٰ
بعض مفسرین نے کہاہے کہ اطاعت کلّی مفہوم میں ہے، خوفِ خدا اس کی داخلی کیفیت ہے اور تقویٰ اس کا خارجی مظہر ہے اس لئے پہلے عمومی طور پر اطاعت کا ذکر ہے اور بعد میں اس کی اندرونی وبرونی کیفیت کی بات ہوئی ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ایک روایت میں ”اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ‘ ‘ کی تفسیر کے بارے میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے:
”انّ المعنیٰ بالآیة امیرالموٴمنین“.
”اس آیت کے مصداق امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں“(۲)۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس آیت کے واضح ترین مصداق ہیں اور مذکورہ روایت کی مراد بھی یہی ہے اور اس سے آیت کی عمومیت ہرگز ختم نہیں ہوتی۔
اس سے اگلی آیت کا لب ولہجہ ظاہر کرتا ہے اور بعض تفاسیر میں مذکور اس کی شان نزول بھی نشاندہی کرتی ہے کہ گزشتہ آیات کہ جن میں منافقین کی شدید مذمت کی گئی ہے کے نزول کے بعد کچھ منافقین اپنی حالت پر سخت پریشان تھے، وہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی بڑی قسمیں کھائیں کہ ہم آپ کے فرمانبردار ہیں، قرآن نے اس کا نوٹس لیا اور بڑے فیصلہ کن انداز میں فرمایا انھوں نے بڑی بڑی قسمیں کھائیں کہ اگر آپ انھیں حکم دیں تو وہ اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ دیں گے (اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں گے) ان سے کہیے قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں، اطاعت اختیار کرکے عملی طور پر اپنے صدق وخلوص کا ثبوت دو کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو الله اس سے باخبر ہے (وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَھْدَ اٴَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اٴَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ قُلْ لَاتُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ إِنَّ اللهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ) ۔
بہت سے مفسرین نے ”لَیَخْرُجُنَّ“ میں ”خروج“ سے مراد جہاد کے لئے نکلنا لیا ہے، بعض دوسرے مفسرین نے گھر بار سے نکلنے یا پیغمبر اکرم کے ساتھ ہر جگہ جانے اور ان کی خدمت میں رہنا مراد لیا ہے، البتہ قرآن مجید میں لفظ ”خرج“ اور اس کے مشتقات میدانِ جہاد کے طرف جانے کے معنی میں بھی آئے ہیں اور گھر بار اور وطن چھوڑنے کے معنیٰ میں بھی، لیکن گذشتہ آیات میں اختلافی مسائل کے لئے پیغمبر اکرم کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے بارے میں جو گفتگو کی ہوئی ہے اس کی مناسبت سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم دوسری تفسیر کو قبول کریں اور اس سے یہ مراد لیں کہ وہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قسم کھاکر کہا کہ مال کا ایک حصّہ تو معمولی سی بات ہے آپ حکم کریں تو ہم سب کچھ چھوڑ دیں، تاہم اس کے باوجود کوئی مانع نہیں کہ دونوں باتیں آیت کے مفہوم میں جمع ہوں یعنی ہم اس کے حکم پر مال ومنال اور گھر بار چھوڑ دیں اور اس کے لئے بھی تیار ہیں کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جہاد کی طرف چلے جائیں ۔
لیکن منافق لوگ بھی حالات نامساعد ہوں تو اپنا چہرہ بدل لیتے ہیں اور بڑی بڑی قسمیں کھانے لگتے ہیں اور کبھی ان کی قسمیں خود ان کے جھوٹ کی دلیل ہوتی ہیں اس لئے قرآن صراحت کے ساتھ انھیں جواب دیتا ہے کہ قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں، عمل سے اپنی بات کا ثبوت پیش کرو لیکن الله تمھارے دل کی گہرائیوں سے آگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ تم جھوٹی قسمیں کھارہے ہو یا واقعاً اپنا طرزِعمل بدلنے کا ارادہ رکھتے ہو ۔
اس لئے زیرِ بحث آخری آیت میں تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: ان سے کہیں کہ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کریں (قُلْ اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ) ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ اس فرمان پر دو ہی صورتیں ممکن ہیں ”اگر تم منھ موڑ لو اور منحرف ہوجاوٴ تو رسول اپنے اعمال کا جواب دہ ہے (اور اس نے اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے) اور تم بھی اپنے اعمال کے جواب دہ ہو (فَإِنْ تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ) ۔ لیکن اگر تم اس کی فرمانبرداری کرو تو ہدایت پاوٴگے (وَإِنْ تُطِیعُوہُ تَھْتَدُوا) ۔ کیونکہ وہ ایسا رہبر ہے کہ جو الله اور حق کے راستے کے علاوہ کسی چیز کی دعوت نہیں دیتا، بہرحال رسول کی کھلی تبلیغ کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں (وَمَا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلَاغُ الْمُبِینُ) ۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ سب تک واضح طور پر حکمِ خدا پہنچادے چاہے کوئی قبول کرے یہ نہ کرے اور اس دعوت کو قبول کرنے یا کرنے کا فائدہ یا نقصان بھی انہی کو ہوگا جو قبول کریں یا نہ کریں ۔ رسول کی یہ ہرگز ذمہ داری نہیں کہ وہ لوگوں کو ہدایت اور دعوت قبول کرنے پر مجبور کریں ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ اس آیت میں ذمہ داری اور مسئولیت کو بوجھ سے تعبیر کیا گیا ہے اور درحقیقت ہے بھی ایسا ہی، رسول الله کی رسالت بھی اور ان کی دعوت پر صدق وخلوص سے اطاعت بھی دوش پر بوجھ ہے کہ جسے منزل تک پہنچانا چاہیے اور سوائے مخلص لوگوں کے کوئی اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا، اسی لئے ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ سلّم کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول الله نے فرمایا:
”یا معاشر قراء القرآن اتقوا الله عزوجل فیما حملکم من کتابہ فانی مسئول واٴنتم مسئولون عن تبلیغ الرسالة، واٴمّااٴنتم فتسئلون عما حملتم من کتاب الله وسنتی“.
”اے قرآن پڑھنے والو! خدائے عظیم سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو اس کی کتاب کے بارے میں کہ جس کا بوجھ اس نے تمھارے کندھوں پر ڈال دیا ہے کیونکہ میں جواب دہ ہوں اور تم بھی جواب دہ ہو، میں تبلیغ رسالت کے بارے میں جدابدہ ہوں اور تم کتابِ خدا اور میری سنت کے بارے میں جواب دہ ہو کہ جس کا بوجھ تمھارے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے ۔
1۔ ”یتقہ“ میں قاف ساکن ہے اور ”ہ“ کے نیچے زیر ہے، یہ دراصل ”یتقیہ“ تھا، شرط کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے اس کی ”ی“ حذف ہوگئی ہے، چونکہ یکے بعد دیگرے دو ،زیریں ثقیل تھیں، اس لئے ان میں سے ایک حذف ہوگئی ہے اور لفظ نے یہ شکل اختیار کرلی ہے ۔
2۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۶۱۶.
سوره نور / آیه 51 - 54سوره نور / آیه 55
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma