ایمان اور خدا کے فیصلے پر سرتسلیم خم کرنا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
شان نزول۱۔ نفاق کی بیماری

گذشتہ آیات میں الله پر ایمان لانے کے بارے میں گفتگو تھی، توحیدِ الٰہی دلائل پیش کئے گئے تھے اور الله کی نشانیوں کا ذکر تھا، زیرِ نظر آیات میں ایمان کے آثار کے بارے میں بات کی گئی ہے، توحید پر ایمان کے تقاضوں کا بیان ہے اور حق وحقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: ہم نے واضح کرنے والی آیات نازل کیں (لَقَدْ اٴَنزَلْنَا آیَاتٍ مُبَیِّنَاتٍ) ۔
ایسی آیات کہ جو دلوں کو نور ایمان وتوحید سے منوّر کرتی ہیں، افکار انسانی کو جلا بخشتی ہیں اور زندگی کے تاریک ماحول کو بدل دیتی ہیں، یہ آیات بیّنات ایمان کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں، لیکن حقیقی تاثیر تو ہدایت الٰہی سے ہوسکتی ہے، کیونکہ ”الله جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے“ (وَاللهُ یَھْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) ۔
اور ہم جانتے ہیں کہ الله کا ارادہ اور اس کی مشیّت بے بنیاد نہیں ہے، نورِ ایمان سے وہ ایسے دلوں کو روشن کرتا ہے جو اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس کے اہل ہوں، یعنی جنھوں نے خود مجاہدہ کی ابتداء کی ہو اس کی طرف قدم بڑھائے ہوں ۔
اس کے بعد منافقین کی مذمت کی گئی ہے کہ جو ایمان کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن ایمان کے دلوں میں نہیں اترتا، ارشاد ہوتا ہے: وہ کہتے ہیں کہ ہم الله پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں اور ان کی اطاعت قبول کرتے ہیں، لیکن اس دعوے باوجود ان میں سے ایک گروہ منھ پھیر لیتا ہے، درحقیقت وہ مومنین ہی نہیں ہیں (وَیَقُولُونَ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالرَّسُولِ وَاٴَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیقٌ مِنْھُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَمَا اٴُوْلٰئِکَ بِالْمُؤْمِنِینَ) ۔

یہ کیسا ایمان ہے کہ جو فقط ان کی زبانوں تک محدود ہے، اور ان کے اعمال میں ظاہر نہیں ہوتا؟
اس کے بعد ان کی بے ایمانی کی دلیل کے طور پر فرمایا گیا ہے: جب انھیں دعوت دی جاتی ہے کہ الله اور اس کے رسول کی طرف آئیں تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک گروہ رُخ موڑ لیتا ہے (وَإِذَا دُعُوا إِلَی اللهِ وَرَسُولِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ إِذَا فَرِیقٌ مِنْھُمْ مُعْرِضُونَ) ۔
مزید تاکید کے لئے اور ان کے شرک اور دنیا پرستی کو مزید واضح کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے: لیکن اگر یہ فیصلہ ان کے فائدے میں جاتا ہو تو بڑی عاجزی کے ساتھ رسول کی طرف آجاتے ہیں (وَإِنْ یَکُنْ لَھُمَ الْحَقُّ یَاٴْتُوا إِلَیْہِ مُذْعِنِینَ) ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ عبارت میں الله اور رسول دونوں کی طرف دعوت کا ذکر ہے لیکن بعد والی عبارت میں ”لیحکم“ مفرد کی شکل میں آیا ہے کہ جو صرف رسول الله کے فیصلے کی طرف اشارہ ہے، یہ اس بناپر ہے کہ رسول الله کا فیصلہ الله کے فیصلہ سے جدا نہیں ہے، دونوں ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتے ہیں ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ کرنا چاہیے کہ مندرجہ بالا آیات میں رسول الله کے فیصلے سے اعراض اور منھ پھیرنے کا ذکر منافقین کے صرف ایک گروہ کے لئے ہے، شاید اس کی کہ وجہ یہ ہے کہ ان کا دوسرا گروہ اس حد تک بے حیا اور جسارت کرنے والا نہیں تھا کیونکہ نفاق بھی ایمان کی طرح مختلف درجات رکھتا ہے ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں رسول الله کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے اصل اسباب بیان کئے گئے ہیں، فرمایا گیا ہے کیا ان کے دلوں میں (نفاق) کی بیماری ہے (اٴَفِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ)
منافقین کی ایک صفت اور ہے کہ وہ اظہار ایمان تو کرتے ہیں، لیکن الله اور سول کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے کیونکہ ان کے دل توحید سے منحرف ہیں ۔
اور اگر ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو پھر سچ مچ وہ ”شک میں مبتلا ہیں“ (اٴَمْ ارْتَابُوا) ۔
اور فطری بات ہے کہ جو شخص کسی دین کو قبول کرنے میں متردّد ہو وہ اس کے لوازم کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گا۔
اور اگر یہ دو نوں باتیں نہیں ہیں اور وہ مومن ہیں ”تو کیا واقعاً ڈرتے ہیں کہ الله اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا“ (اٴَمْ یَخَافُونَ اٴَنْ یَحِیفَ اللهُ عَلَیْھِمْ وَرَسُولُہُ) ۔
حالانکہ یہ واضح تضاد ہے جو شخص رسول اسلام کو الله کا بھیجا ہوا رسول اور اس کا پیغمبر سمجھتا ہے اور اس کے حکم کو خدا کا حکم سمجھتا ہے، ممکن نہیں ہے کہ اسے احتمال ہو کہ وہ ظلم کریں گے، کیا یہ ممکن ہے کہ الله کسی پر ظلم کرے؟ کیا ظلم، جہالت، احتیاج یا خود غرضی کی پیداوار نہیں؟ جبکہ ذاتِ مقدس پروردگار ان سب چیزوں سے پاک ہے، ”بات دراصل یہ ہے کہ وہ خود ظالم ہے“ (بَلْ اٴُوْلٰئِکَ ھُمْ الظَّالِمُونَ) ۔
وہ نہیں چاہتے کہ اپنے حق پر قناعت کریں اور چونکہ وہ جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ایسی کوئی چیز انہیں دیں گے کہ جس پر کسی دوسرے کا حق ہو، لہٰذا وہ آپ کا فیصلہ قبول کرنے کو تیّار نہیں ہیں ۔
تفسیر ”فی ظلال القرآن“ کے موٴلف کے بقول ان تینوں تعبیروں میں سے ہر ایک خاص پہلو کی حامل ہے ۔
پہلی اثبات کے لئے ہے
دوسری تعجب کے لئے ہے
تیسری انکار کے لئے ہے ۔
پہلے جملے میں قرآن حقیقی وجہ بیان کرنا چاہتا ہے اور وہ ہے نفاق کی بیماری۔
دوسرے جملے میں عدالتِ رسول میں ان کے شک پر تعجب کا اظہار مقصود ہے ، نیز رسول الله کے فیصلے کی صحت کا اعلان ہے، جبکہ وہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
تیسرے جملے میں ان کے واضح تضاد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے ایمان کے دعوے سے ان کا عمل ہم آہنگ نہیں ہے(1)۔
مفسر مذکور کی بات پر صرف یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ”ام ارتابوا“ کو عدالت رسول اور فیصلے کی صحت پر شک کے معنیٰ میں لیا ہے، حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ خود نبوّت میں شک کو بیان کرتا ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے اس امر کو قبول کیا ہے ۔
1۔ تفسیر فی ظلا ل القرآّن ،ج۶، صفحہ ۵ ۱۱۔ 
شان نزول۱۔ نفاق کی بیماری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma