1. آیت میں ”ماء“سے کیا مراد ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
ایک سوال کا جواب۲۔ ایک سوال کا جواب

لفظ ”ماء“ (پانی) سے یہاں کونسے پانی کی طرف اشارہ ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے آراء مختلف ہیں، ان آراء کو تین تفسیروں میں جمع کیا جاسکتا ہے:
۱۔ اس سے مراد نطفے کا پانی ہے، بہت سے مفسرین نے اس تفسیر کو انتخاب کیا ہے، بعض روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
اس تفسیر میں یہ مشکل درپیش ہے کہ تمام چلنے والے جاندار نطفے سے پیدا نہیں ہوتے، ایسے بھی جاندار میں کہ جو ایک خلیے سے پیدا ہوتے ہیں، ایسے بھی رینگنے والے جاندار ہیں کہ جو ”دابة“ کا مصداق ہیں اور خلیوں کی تقسیم سے وجود میں آتے ہیں، نہ کہ نطفے سے ۔
ہاں البتہ یہ کہا جائے کہ آیت نوعی پہلو رکھتی ہے، کلی نہیں، پھر بات ٹھیک ہوسکتی ہے ۔
۲۔ اس سے مراد پہلے موجود کی پیدائش ہے، کیونکہ بعض روایات کے مطابق سب سے پہلے الله نے پانی کو پیدا کیا اور اس کے بعد انسانوں کو پانی سے پیدا کیا، جدید سائنسی مفروضے کی بناء پر زندگی کی پہلی کونپل دریاوٴں میں ظاہر اور پانیوں میں پیدا ہونے والا یہ پہلا موجود سب سے پہلے انہی پانیوں کی گرائیوں پر یا ان کے کناروں پر حکمران ہوا۔
البتہ وہ وقت کہ جس نے ان تمام پیچیدگیوں کے ساتھ پہلے مرحلے میں موجود زندہ کو وجود بخشا اور پھر بعد کے مراحل میں ہدایت کی وہ ایک مافوق طبیعات قوت تھی، یعنی ارادہٴ الٰہی۔
۳۔ ا س سے مراد یہ ہے کہ موجودہ حالت موجودات کی بقاء کا دارومدار پانی پر ہی ہے اور ان کی ساخت کا اہم حصّہ پانی پر مشتمل ہے اور کوئی جاندار پانے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
یہ تفاسیر ایک دوسرے کے منافی تو نہیں لیکن پہلی اور دوسری تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے(1)۔
1۔ تکامل انواع کے بعض طرفداروں نے اپنے مفروضے کے لئے اس آیت کا سہارا لیا ہے، لیکن ہم نے جلد نمبر۱۱۔ میں سورہٴ فجر کی آیت ۲۶ کے ذیل میں اس مفروضے کے ثابت نہ ہونے کے بارے میں بات کی ہے، یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اصولاً آیات قرآن کو مفروضوں پر منطبق نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آیاتِ قرآنی حقیقت ثابت رکھتی ہیں جبکہ مفروضے بدلتے رہتے ہیں ۔
ایک سوال کا جواب۲۔ ایک سوال کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma