۵۔ ”صلاة“ سے کیا مراد ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۴۔ ”کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیحَہُ“ کی تفسیرسوره نور / آیه 43 - 45

بعض مفسرین مثلاً طبرسی مرحوم نے مجمع البیان اور آلوسی نے روح البیان میں اس مقام پر ”صلاة“ کا معنی ”دعا“ کیا ہے کہ اس کا اصل لغوی معنی ہے، اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین وآسمان کے موجودات زبانِ حال یا زبانِ مقال سے بارگاہِ خدا میں دعا کرتے ہیں اور اس سے فیض کا تقاضا کرتے ہیں اور وہ بھی چونکہ فیاض مطلق ہے انھیں ان کی استعداد کے مطابق عطا کرتا ہے اور نوازنے میں دریغ نہیں کرتا۔ البتہ ان میں ہر کوئی اپنے آپ میں جانتا ہے کہ اسے کس چیز کی احتیاج ہے اور اسے کیا مانگنا چاہیے اور کیا دعا کرنا چاہیے ۔
علاوہ ازیں ان آیات کے مطابق کہ جن کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے اس کی بارگاہِ عظمت اور قوانینِ آفرینش کے سامنے وہ سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اپنے تمام وجود کے ساتھ الله کی صفاتِ کمال بیان کرتے ہیں اور اس سے ہر قسم کے نقص کی نفی کرتے ہیں اور اس طرح ان کی چاروں عبادات حمد، تسبیح، دعا اور سجود کی تکمیل ہوتی ہے ۔
۴۔ ”کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیحَہُ“ کی تفسیرسوره نور / آیه 43 - 45
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma