3۔ چہرے اور ہاتھوں کا استثنائ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
2. پردے کے مخالفین کے اعتراضات4۔ ”نسائھن“ سے کون مراد ہیں؟
اس سلسلے میں کہ کیا چہرے اور کلائیوں سے نیچے ہاتھوں کے لئے بھی پردے کا حکم ہے یا نہیں، اس سلسلے میں فقہاء میں بہت اختلاف ہے اور اس پر بہت بحث کی گئی ہے ۔
بہت سے فقہاء کا نظریہ ہے کہ منھ اور ہاتھوں کا چھپانا پردے کے حکم سے مستثنیٰ ہے جبکہ بعض کا فتویٰ ہے کہ ان کا چھپانا بھی واجب ہے یا کم از کم احتیاط کے مطابق ہے، البتہ جو فقہاء ان دونوں کا چھپانا واجب نہیں سمجھتے وہ بھی یہ شرط لگاتے ہیں کہ جب ان کا نہ چھپانا گناہ وانحراف کا سبب بنتا ہو تو ان کا چھپانا واجب ہے ۔
زیرِ بحث آیت میں اس استثناء کے قائن موجود ہیں کہ جن سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے مثلاً:
( الف) زیرِ بحث آیت میں زینتِ ظاہر کو مستثنیٰ کیا گیا ہے چاہے یہ مقامِ زینت کے معنی میں ہیں، یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھوں چھپانا واجب نہیں ہے ۔
(ب) زیرِ بحث آیت میں چادر ایک پلّو گریبان پر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام سر، گردن اور سینہ چھپایا جائے، اس میں منھ کے چھپانے کی کوئی بات نہیں کی گئی، یہ ہمارے بیان کردہ مفہوم کی تائید کے لئے ایک اور قرینہ ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ جیسا کہ شانِ نزول میں بھی ہم نے بیان کیا ہے کہ اس زمانے میں عرب عورتیں دوپٹہ یا چادر اوڑھا کرتی تھیں، اس کے آنچل پر دوش پر اور پس گردن ڈال لیتی تھیں، اس طرح سے چادر ان کے کانوں کے پیچھے ہوتی تھی سر اور گردن کی پشت کا حصّہ چھپا ہوتا تھا لیکن گلے کے نیچے کا کچھ حصّہ جو گریبان کے اوپر ہوتا تھا وہ نمایاں رہتا تھا۔اسلام آیا تو اس نے اس کیفیت کی اصلاح کی، اسلام نے حکم دیا کہ عورتیں چادر پلّو کان کے نیچے یا سر کے پیچھے سے آگے لے آئیں اور اسے گریبان اور سینے کے اوپر ڈالیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف چہرہ کھلا رہ گیا اور باقی سب کچھ چھپ گیا۔
ج) کتب حدیث میں اس سلسلے میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ جو ہمارے دعویٰ پر زندہ دلیل ہیں(1) اگرچہ ان کی معارض روایات بھی ہیں مگر ان میں اس حد تک صراحت نہیں ہے ۔
ایسی دونوں طرح کی روایات کو یکجا کیا جاسکتا ہے، اس لحاظ سے کہ جن روایات میں چہرہ اور ہاتھ چھپانے کی بات ہے انھیں مستحب حکم سمجھا جائے یا اس حکم کو ان مواقع کے لئے سمجھا جائے کہ جہاں گناہ، برائی اور انحراف کا اندیشہ ہو ۔
تاریخی شواہد بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ صدر اسلام میں عورتیں عموماً چہرے پر نقاب ڈالتی تھیں، (اس مسئلے کی روایات پر نیز اس کے مختلف فقہی پہلووٴں پر تفصیلی بحث کے لئے کتب فقہ کا باب نکاح دیکھئے) ۔
ہم ایک مرتبہ پھر تاکید کرتے ہیں کہ چہرے اور ہاتھوں کے کھلے رہنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب ایسا کرنا سوئے استفادہ اور انحراف کا سبب نہ بنے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے پردے سے استثنیٰ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جائز ہے کہ دوسرے لوگ جان بوجھ کر دیکھتے رہیں بلکہ درحقیقت یہ عورتوں کے لئے امور زندگی میں سہولت کی خاطر ہے ۔
1۔ کتاب وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۴۵، باب۱۰۹، از ابواب مقدمات نکاح ۔
2. پردے کے مخالفین کے اعتراضات4۔ ”نسائھن“ سے کون مراد ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma