بغیر اجازت لوگوں کے گھروں میں نہ جاوٴ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 27 - 29۱۔ گھر کی چار دیواری کا تحفظ اور آزادی

ان آیات میں اسلام کے چند ایک معاشرتی آداب واحکام بیان ہوئے ہیں، ان عفّت وپاکدامنی سے بھی قریبی تعلق ہے ۔
ان آیات میں دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے اور داخل نہ ہونے کی اجازت لینے کے آداب بیان ہوئے ہیں ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: ایمان والوں اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا اور اس گھر والوں کو سلام بھی کرنا (اور قبل ازیں اپنی آمد کی اطلاع دینا اور داخل ہونے کے لئے اجازت حاصل کرنا) (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَاٴْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلیٰ اٴَھْلِھَا) ۔
یہ تمھارے لئے بہتر ہے، شاید تم توجہ دو (ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ) ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ یہاں لفظ ”تَسْتَاٴْنِسُوا“ استعمال ہوا ہے نہ کہ ”تستاٴذنوا“ کیونکہ دوسرے لفظ میں صرف اجازت لینے کا مفہوم ہے جبکہ پہلا لفظ مادہٴ ”انس“ سے لیا گیا ہے، اس سے ایسی اجازت لینا مراد ہے کہ جس میں لطف ومحبت اور صداقتِ پنہاں ہو، یعنی موٴدبانہ طریقے سے اور بغیر کسی درشتی وسختی کے اجازت لی جائے ۔
اس لحاظ سے اگر اس جملے کا تجربہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں بہت سے آداب اشارتاً بیان کردیئے گئے ہیں، مطلب یہ ہے کہ شور نہ مچاوٴ، دروازہ زور زور سے نہ کھٹکھٹاوٴ اور تکلیف دہ خشک الفاظ نہ بولو اور جب اجازت مل جائے تو بغیر سلام کئے اندر نہ جاوٴ، ایسا سلام کہ جو صلح وسلامتی ومحبت کا پیامبر ہو ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ حکم جس میں انسانی احساسات کا پہلو نمایاں ہے کہ ساتھ ساتھ دو جملے مزید آئے ہیں، ایک ”ذلکم خیر لکم“ اور دوسرا ”لعلّکم تذکرون“ یہ جملے اس امر کی دلیل ہیں کہ اس قسم کے احکام انسانی احساسات اور عقل وشعور کی گہرائیوں میں پہلے سے مت جاوٴ جب تک کہ تمھیں اجازت نہ مل جائے (فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِیھَا اٴَحَدًا فَلَاتَدْخُلُوھَا حَتَّی یُؤْذَنَ لَکُمْ) ۔
ہوسکتا ہے اس سے یہ مراد ہو کہ بعض اوقات گھر میں کچھ افراد تو ہوتے ہیں لیکن کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا کہ جو صاحبِ اختیار اور گھر کا مالک ہو اور اجازت دے سکے، تو ایسی صورت میں تمھیں حق نہیں کہ اس گھر میں داخل ہو، یا ہوسکتا ہے کہ گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دے، اس موقع پر تم داخل ہونے کا حق رکھتے ہو، بہرحال اصل مسئلہ یہ ہے کہ تم بلااجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاوٴ تو اس بات کو قبول کرتے ہوئے واپس چلے جاوٴ کہ یہ تمھارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے (وَإِنْ قِیلَ لَکُمْ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ھُوَ اٴَزْکَی لَکُمْ) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر تمھیں واپس چلے جانے والے کے لئے کہا جائے تو تمھیں اس جواب پر ہرگز پریشان اور ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بعض اوقات صاحبِ خانہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ اس لئے کہ تم سے ملنا پریشانی اور زحمت کا باعث ہوتا ہے یا اس کی اور اس کے گھر کی ایسی حالت نہیں ہوتی کہ وہ مہمان کو گھر بلاسکے ۔
بعض لوگوں کو نفی میں جواب ملے تو وہ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں،دروازے کے سوراخوں سے دیکھتے ہیں، کان لگاکر اندر کی آوازیں سنتے ہیں یا کسی کے ذریعے سے اس کے گھر کے راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں، اسی بات کے پیش نظر قرآن مزید کہتا ہے: جو کچھ تم کرتے ہو الله اس سے آگاہ ہے (وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ) ۔
مسائل کے حل کے معقول صورت میں پیدا کرنے کے لئے ہرحکم میں کوئی استثنائی پہلو ہوتا ہے، اس لئے مزید فرمایا گیا ہے: جن گھروں میں کوئی نہ رہتا ہو اور ان میں تمھارا مال واسباب پڑا ہوا تو پھر ان میں داخل نہ ہونے میں تم پر کوئی گناہ نہیں (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُونَةٍ فِیھَا مَتَاعٌ لَکُمْ) ۔ یہ بھی اضافہ فرمایا گیا ہے: اور جو کچھ تو ظاہر کرتے یا چھپاتے ہو الله اسے جانتا ہے (وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ) ۔
شاید یہ اس طرف اشارہ ہو کہ بعض افراد ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جو اس رعایت سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اور غیر رہائشی گھروں میں داخل ہوکر چیزوں کو ٹوہ لگاتے پھریں یا رہائشی گھروں میں اس بہانے سے چلے جائیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ یہاں کوئی رہتا ہے لیکن الله ان تمام امور سے آگاہ ہے اور غلط فائدے اٹھانے والوں کو خوب جانتا ہے ۔
سوره نور / آیه 27 - 29۱۔ گھر کی چار دیواری کا تحفظ اور آزادی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma