۱۔ ”خبیثات“ اور ”خبیثون“ کون ہیں؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
”کند ہمجنس با ہمجنس پرواز“۲۔ یہ حکم تکوینی ہے یا تشریعی؟
زیرِ بحث آیات میں ”خبیثات“ اور ”خبیثون“ نیز ”طیبات“ اور ”طیبین“ سے کون مراد ہیں، اس سلسلے میں مختلف بیانات ہیں مثلاً:
۱۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد پاک باتیں ، تہمت، افتراء اور جھوٹ ہے کہ جن کا تعلق غلط اور گندے افراد کے ساتھ ہے اور اس کے برعکس پاکیزہ باتیں پاک وباتقویٰ افراد کے لئے ہیں ۔
۲۔ بعض کہتے ہیں کہ ”خبیثات“ اور ”سیّئات“ کے معنی میں ہے یعنی اس سے مراد مطلق بُرے اور ناپسندیدہ کام ہیں کہ جو ناپاک مرد بجالاتے ہیں اس کے برعکس حسنات پاک لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔
۳۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ”خبیثات“ اور ”خبیثون“ آلودہ دامن عورتوں اور مردوں کی طرف اشارہ ہے اور اس کے برعکس ”طیبات“ اور ”طیبین“ پاکدامن عورتوں اور مردوں کی طرف اشارہ ہے، ظاہراً بھی آیت سے یہی مراد ہے کیونکہ ایسے قرائن موجود ہیں کہ جو اس آخری معنی کی تائید کرتے ہیں مثلاً:
الف) یہ آیات، آیاتِ افک کے بعد آئی ہیں اوراسی طرح اس آیت سے پہلے یہ آیت بھی گزر چکی ہے:
<الزَّانِی لَایَنکِحُ إلاَّ زَانِیَةً اٴَوْ مُشْرِکَةً وَالزَّانِیَةُ لَایَنکِحُھَا إِلاَّ زَانٍ اٴَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ
اور یہی تیسری ان آیات کے مفہوم کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔
ب) اس آیت میں یہ جملہ:
”اولٰئک مبروٴن مما یقولون“
پاکدامن مردو اور عورتوں پر ناروا تہمتیں لگائی جاتی ہیں وہ اس سے پاک ومنزّہ ہیں ۔
یہ جملہ بھی مذکورہ بالا تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔
ج) اصولی طور پر قرینہٴ مقابلہ اس بات کی نشانی ہے کہ ”خبیثات“ سے مراد حقیقی جمع موٴنث ہے اور ناپاک عورتوں کی طرف اشارہ ہے چونکہ اس کے مقابلے میں ”خبیثون“ ہے کہ جو حقیقی جمع مذکر ہے ۔
د) ان سب باتوں سے قطع نظر امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں منقول ہے کہ: یہ آیت بھی <الزَّانِی لَایَنکِحُ إلاَّ زَانِیَةً اٴَوْ مُشْرِکَةً کی طرح ہے کیونکہ کچھ ایسے لوگ تھے کہ جنھوں نے بری عورتوں سے شادی کا ارادہ کررکھا تھاتو الله نے انھیں اس کام سے منع کیا اور اسے ناپسند فرمایا (1) ۔
ھ) روایاتِ نکاح میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات آئمہ علیہ السلام کے اصحاب ”خبیثات“ سے شادی کے بارے میں سوال کرتے تو انھیں ایسا کرنے سے منع کیا جاتا، یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ ”خبیثات“ ناپاک عورتوں کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ناپاک باتوں اور ناپاک اعمال کی طرف (2) ۔
اس مقام پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبیث یا طیّب ہونے سے صرف عفت وناموس کا پہلو مراد ہے یا ہر قسم کی فکری، عملی اور زبانی ناپاکی ان کے مفہوم میں داخل ہے؟
اگر اس سلسلے کی آیات وروایات کے سیاق وسباق کو نظر میں رکھا جائے تو اس زیرِ بحث آیت کا مفہوم محدود نہیں ہونا چاہیے یعنی عفّت وناموس کے مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن بعض ایسی روایات بھی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر خبیث وطیب کا وسیع معنی ہے اور ا س کا مفہوم آلودگی اور پاکیزگی میں منحصر نہیں ہے، اس نظریے کی بنیاد پر بعید نہیں ہے کہ پہلا مفہوم آیت کا خاص معنی ہو لیکن ملاک، فلسفہ اور علت کے لحاظ سے اسے عمومیت اور وسعت دی جاسکتی ہو ۔
دوسرے لفظوں میں یہ آیت ہے تو عمومی بیان کے لئے لیکن زیرِ بحث مسئلے کے اعتبار سے جنسی امور میں آلودگی اور پاکیزگی کی بات کرتی ہے (غور کیجئے گا) ۔
1۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیات کے ذیل میں ۔
2۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۳۳۷، با ب۱۴ از ابواب ”ما یحرم بالمصاھر ونحوھا“.
”کند ہمجنس با ہمجنس پرواز“۲۔ یہ حکم تکوینی ہے یا تشریعی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma