شان نزول کے بارے میں تحقیق

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
مندرجہ بالا آیات کے لئے دو شان نزول نقل ہوئی ہیں:ایک بہت بڑی تہمت
پہلی شان نزول جیسا کہ ہم نے کہا ہے بہت سی کتب میں موجود ہے لیکن اس میں کئی ایک مبہم نقاط موجود ہیں مثلاً:
۱۔ اس حدیث میں الفاظ کے اختلاف کے باوجود اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ رسول الله اس پراپیگنڈا کے زیر اثر آگئے تھے، یہاں تک کہ آپ نے اس سلسلے میں مشورے اور بات چیت کے لئے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک میٹنگ کی بلکہ عائشہ سے بھی اپنا رویہ تبدیل کرلیا اور طویل عرصے تک ان سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی اور اسی طرح دیگر کئی ایک ایسے اقدامات کئے کہ جو اس امر کی حکایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے اس پراپیگنڈا کو بہت حد تک قبول کرلیا تھا، یہ امر نہ فقط آپ کے مقامِ عصمت کے خلاف ہے بلکہ ایک باایمان ثابت قدم مسلمان کو بھی اس قسم کے بے دلیل پراپیگنڈا کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے اور اگر فکری طور پر کوئی اس سے متاثر ہو بھی تو عملاً اس کی وجہ سے اپنا طرزِ عمل نہیں بدلنا چاہیے اور اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے، چہ جائیکہ ایک معصوم کہ جس کا مقام اور قدر ومنزلت واضح ہے ۔
اگلی آیتوں میں اس پراپیگنڈا کا اثر قبول کرنے والے مومنین کو شدید سرزنش کی گئی ہے کہ انھوں نے چار گواہوں کا مطالبہ کیوں نہیں کیا، کیا باور کیا جاسکتا ہے کہ یہ شدید عتاب اور سرزنش پیغمبراکرم کے لئے بھی ہو؟ یہ ایک اہم اعتراض ہے کہ جو کم از کم اس شانِ نزول کے بارے میں شک ضرور پیدا کرتا ہے ۔
۲۔ ظاہرِ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قذف سے مربوط حکم واقعہ افک سے پہلے نازل ہوا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود رسول الله نے عبد الله بن ابی سلول اور دیگر ان لوگوں پر اسی دن حد کیوں جاری نہ کی کہ جنھوں نے یہ تہمت لگائی تھی (البتہ اگر آیہٴ قذف اور واقعہ افک سے مربوط آیتیں اکھٹی نازل ہوئی ہوں تو پھر یہ اعتراض ہوجائے گا لیکن پہلا اعتراض اسی شدّت سے باقی رہے گا)(1) ۔
رہی دوسری شانِ نزول کی بات تو اسے قبول کرنا تو اور بھی مشکل ہے کیونکہ:
اوّلاً: اس شانِ نزول کے مطابق یہ تہمت صرف ایک خاتون نے لگائی تھی جبکہ آیات صراحت کے ساتھ کہتی ہیں کہ یہ متعدد افراد کا کام تھا اور انھوں نے مل کر یہ پروپیگنڈا کیا تھا اور بات پورے ماحول میں پھیل گئی تھی، اسی لئے ان مسلمان پر عتاب وسرزنش کے لئے جو ضمیریں استعمال ہوئی ہیں سب جمع کی ہیں اور یہ امر دوسری شانِ نزول سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔
ثانیاً: یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اگر یہ تہمت صرف عائشہ نے لگائی تھی اور بعد ازاں معاملہ اس کے برخلاف ثابت ہوگیا تو پھر رسول الله نے ان پر حد تہمت کیوں جاری نہیں کی؟
ثالثاً: کیونکر ممکن ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی پر رسول الله کسی ملزم کے قتل کا حکم صادر فرمادیں جبکہ سوکنوں میں رقابت وحسد تو معمول کی چیز ہے، یہ امر تقاضا کرتا تھا کہ آپ کو اس الزام میں حق و عدالت سے انحراف کا احتمال پیدا ہوتا کم از کم یہ احتمال پیدا ہوتا کہ ہوسکتا ہے اسے اشتباہ ہوا ہو ۔
بہرحال ہمارے لئے جو کچھ اہم ہے وہ یہ شانِ نزول نہیں، اہم یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ مجموعی طور پر ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت ایک بے گناہ شخص پر کچھ لوگوں نے بدکاری کا الزام لگایا تھا اور یہ پراپیگنڈا معاشرے میں پھیل چکا تھا، نیز آیت میں موجود قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص پر تہمت لگائی تھی کہ جو اس معاشرے میں خاص اہمیت کا حامل تھا اور منافقین کہ جو ظاہراً مسلمانوں میں شامل تھے اس سے غلط مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اور اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے، لہٰذا یہ آیات نازل ہوئیں اور بے مثال قاطعیت کے اس حادثے کا مقابلہ کیا، ان آ یات نے بدزبان منحرفین اور سیاہ دل منافقین کی سازشوں کو بری طرح ناکام بنادیا۔
واضح رہے کہ شان نزول کچھ بھی ہو ان آیات کے مفہوم کو زمان ومکان میں منحصر نہیں کیا جاسکتا اور ان کا حکم ہر معاشرے اور ہر زمانے کے لئے ہے ۔
ان تمام باتوں کے بعد اب ہم تفسیر آیات کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تاکہ ہم دیکھیں کہ قرآن نے کیسی فصاحت وبلاغت سے اس واقعے کو باریکیوں کے ساتھ بیان کیا ہے یہاں تک کہ مسئلہ حل ہوگیا اور سچ جھوٹ میں فرق نمایاں ہوگیا۔
1۔ المیزان، ج۱۵، ص۱۱۱.
مندرجہ بالا آیات کے لئے دو شان نزول نقل ہوئی ہیں:ایک بہت بڑی تہمت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma