۴۔ احکامِ قذف

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۳۔ قبولیت توبہ کی اہم شرطسوره نور / آیه 6 - 10
ہمارے ہاں حدود میں ایک باب ”حدقذف“ کے عنوان سے ہے ۔
”قذف“ (بروزن ”حذف“) لغت کے اعتبار سے دور کی جگہ چھلانگ لگانے اور پھینکنے کے معنی میںہے لیکن ایسے موقع پر ”رمی“ کسی کی عزّت پر تہمت لگانے کے مفہوم میں بطور کنایہ استعمال ہوتا ہے اور دوسرے لفظوں میں فحش کلامی اور گ۔الیاں دینے کے معنی میں ہے ۔
اگر قذف صریح لفظ کے ساتھ ہو اگرچہ کسی بھی زبان اور شکل میں ہو اس کی حد اسّی کوڑے ہے اور اگر صراحت سے نہ ہو تو پھر اس کے لئے تعزیر ہے (تعزیر ایسے گناہوں کے لئے ہوتی ہے جن کی حد شریعت نے معیّن نہیں کی بلکہ حاکمِ شرع کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مجرم کی خصوصیات، جرم کی کیفیت اور دیگر حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک خاص حد تک سزا مقرر کرے) ۔
یہاں تک کہ اگر کوئی شخص متعدد افراد پر تہمت لگائے اور انھیں گالی دے اور ان میں ہر ایک کی طرف اس گناہ کی نسبت دے تو ہر ایک نسبت کے مقابلے میں اس پر حدِ قذف جاری ہوگی لیکن بیک مرتبہ مجموعی طور پر ان پر تہمت لگائے اور وہ بھی باہم اکھٹے ہوکر اس کی سزا کا مطالبہ کریں تو اس پر ایک حد جاری ہوگی لیکن اگر وہ الگ الگ دعویٰ دائر کریں تو ہر ایک کے مقابلے میں اس پر ایک حد جاری ہوگی ۔
یہ معاملہ اس قدر اہم ہے کہ اگر کسی پر تہمت لگائی جائے اور وہ فوت ہوجائے تو اس کے وارث دعویٰ دائر کرسکتے ہیں اور حد جاری کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں، البتہ یہ حکم چونکہ ایک شخص کے حق کے ساتھ مربوط ہے اس لئے اگر صاحبِ حق مجرم کو معاف کردے تو پھر اس کی حد ساقط ہوجائے گی لیکن اگر اس جرم کا اس قدر تکرار ہو کہ معاشرے کی عزّت ووقار خطرے میں پڑجائے تو پھر صورت اور ہوگی ۔
اگر دو افراد ایک دوسرے پر تہمتِ ناموس لگائیں تو اس صورت میں دونوں سے حد ساقط ہوجائے گی، لیکن قاضی کے حکم سے دونوں پر تعزیر جاری ہوگی، لہٰذا کسی مسلمان کو حق نہیں کہ گالی کا جواب گالی سے دے بلکہ صرف قاضی کے ذریعے حق حاصل کرسکتا ہے اور گالی دینے والے کے لئے سزا کا مطالبہ کرسکتا ہے ۔
بہرحال اس اسلامی حکم کا مقصد اوّلاً انسانوں کی عزت وآبرو کی حفاظت ہے اور ثانیاً بہت سے ایسے سماجی اور اخلاقی مفاسد کی روک تھام ہے کہ جو اس کام سے معاشرے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اگر برے اور فاسد افراد کو کھلی چھٹی مل جائے کہ وہ ہر کسی کو گالیاں دیں اور تہمتیں لگائیں اور پھر انھیں کوئی سزا نہ ملے تو لوگوں کی آبرو اور ناموس ہمیشہ معرضِ خطر میں رہے گی، یہاں تک کہ ان تہمتوں کے باعث بیوی اور شوہر کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جائے گااور باپ کو اعتبار نہیں رہے گا کہ اس کا بیٹا اس کی جائز اولاد ہے، مختصر یہ کہ گھرانے کا وجود خطرے میں پڑجائے گا اور پاک ذہن اور پاک فکر داغدار ہوکر رہ جائے گی ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں سخت اور ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے، وہی سختی جو اسلام نے ایسے بد زبان اور آلودہ دہن افراد کے لئے روا رکھی ہے ۔
ہاں ہاں، ایسے افراد کو ایک بدی، تہمت اور گالی پر اسّی کوڑے کھانے چاہئیں تاکہ وہ لوگوں کی عزت وآبرو سے نہ کھیل سکیں ۔
۳۔ قبولیت توبہ کی اہم شرطسوره نور / آیه 6 - 10
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma