زانی مرد اور زانی عورت کی سزا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 1 - 3۱۔ وہ مواقع جہاں زانی کی سزا ”موت“ ہے

ہم جانتے ہیں کہ آیتِ نور کی اس سورت کانام سورہٴ نور ہے اور یہ آیت نہایت جاذبِ نظر ہے لیکن اس سے قطع نظر اس سورہ کے مضامین ومطالب ایک خاص نورانیت کے حامل ہیں، یہ سورت انسانوں کو انسان کے خاندان کو اور عورت ومرد کو پاکدامنی کا نور عطا کرتی ہے، زبان وکلام کو تقویٰ وصداقت کا نور بخشتی ہے، دلوں کو نورِ خدا پرستی اور قیامت پر ایمان سے منور کرتی ہے اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی دعوت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نورانی درس دیتی ہے ۔
اس سورت کی پہلی آیت در حقیقت اس کے تمام مطالب کی طرف اجمالی اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے، یہ وہ سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا اور واجب کیا اور اس میں ہم نے آیات بیّنات نازل کیں کہ شاید تم نصیحت حاصل کرو (سُورَةٌ اٴَنزَلْنَاھَا وَفَرَضْنَاھَا وَاٴَنزَلْنَا فِیھَا آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ) ۔
سورہ ”سور“ کے مادہ سے کسی عمارت کی بلندی کے معنی میں ہے، بعد ازاں یہ ان بلند دیواروں کے معنی میں استعمال ہونے لگا جو گزشتہ زمانے میں حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کے لئے بنائی جاتی تھیں، یہ دیواریں چونکہ شہر کو بیرونی علاقے سے جدا کردیتی تھیں اس لئے رفتہ رفتہ یہ لفظ کسی چیز کے ٹکڑے اور حصّے کے معنی میں استعمال ہونے لگان اسی طرح قرآن کے ایک ایسے ٹکڑے اور حصّے کو بھی ”سورہ“ کہا جاتا ہے کہ جو باقی ماندہ سے جدا ہوتا ہے ۔
بعض اہل لغت نے بھی کہا ہے کہ ”سورہ“ خوبصورت اور بلند عمارت کو کہا جاتا ہے اور ایک عظیم عمارت کے مختلف حصّوں کو بھی ”سورہ“ کہتے ہیں، اسی بناپر قرآن کے مختلف حصّوں کو جو ایک دوسرے سے جدا ہیں، پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ۔
بہرحال یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس سورت کے تمام مطالب بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ الله کی طرف سے نازل ہوئے ہیں چاہے وہ عقائد ہوں، آدابِ معاشرت ہوں یہ احکام ہوں ۔
خصوصاً یہاں لفظ ”فَرَضْنَاھَا“ (ہم نے اسے فرض قرار دیا ہے) استعمال کیا گیا ہے اور ”فرض“ کا معنیٰ یقین اور ”قطع“ ہے اس لفظ سے بھی مذکورہ امر پر تاکید ہوتی ہے ۔
”آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ“ کی تعبیر ہوسکتا ہے توحید، مبداء ومعاد اور نبوّت جیسے حقائق کی طرف اشارہ ہو کہ جن کا ذکر اس سورت میں آیا ہے جبکہ ”فرضنا“ اس احکام وقوانین کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس سورت بیان کئے گئے ہیں، بالفاظ دیگر ایک عقائد کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا احکام کی طرف۔
”لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ“ (شاید تم نصیحت حاصل کرو) یہ جملہ ایک بار پھر اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ اسلام کے تمام سچّے عقائد اور عملی پروگراموں کی جڑ انسانی فطرت کے اندر موجود ہے کہ ا ن کا ذکر ایک قسم کا ”تذکر“ اور یاد دہانی ہے ۔
اس عمومی اور کلّی بیان کے بعد زانی عورت اور زانی مرد کے بارے میں پہلا قطعی اور حتمی قانون بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاوٴ (الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ) ۔
مزدی تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: اس خدائی حدا کا اجراء کرتے ہوئے تمھیں ہرگز ترس نہیں آنا چاہیے، اگر تم الله اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو (وَلَاتَاٴْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاٴْفَةٌ فِی دِینِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ) ۔
اس خدائی سزا سے مکمل نتیجہ حاصل کرنے کے لئے آیت کے اختتام پر ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مومنین کا ایک گروہ حد جاری ہوتے وقت مشاہدے کے لئے موجود ہونا چاہیے (وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ) ۔
یہ آیت دراصل ان تین احکام پر مشتمل ہے:
۱۔ زانی عورتوں اور زانی مردوں کی سزا (زنا سے مراد اس مرد اور عورت کا آپس میں جنسی ملاپ ہے کہ جو آپس میں شادی شدہ نہیں کہ جس کے لئے کوئی شرعی جواز موجود نہیں) ۔
۲۔ اس امر کی تاکید کہ اس سزا کے کے اجراء کے لئے ہرگز ترس اور بے محل نرمی کے احساسات نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ایسے ترس اور نرمی کا نتیجہ معاشرے کی آلودگی اور ترویجِ گناہ کے سوا کچھ نہیں ہے البتہ ایسے احساسات کو ختم کرنے کے لئے قرآن نے الله اور روزِ جزا پر ایمان کا ذکر کیا ہے کیونکہ مبداء ومعاد پر ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان الله کے فرمان کے سامنے کاملاً سرتسلیم خم کرلے، خدائے حکیم پر ایمان لانا اس امر کا سبب بنتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کے ہرحکم کا کوئی فلسفہ ہے اور اس میں کوئی حکمت پوشیدہ ہے اور وہ بلاوجہ نہیں ہے جبکہ معاد پر ایمان رکھنا سبب بنتا ہے کہ انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مجھے اپنی غلطیوں کا جواب دینا ہوگا ۔
اس سلسلے میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی ایک عمدہ حدیث نقل کی گئی ہے، اس کی طرف توجہ ضروری ہے آپ فرماتے ہیں:
یوٴتی بوال نقص من الحد سوطاً فیقال لہ لم فعلت ذاک؟
فیقول: رحمة لعبادک.
فیقال لہ: اٴنت اٴرحم بھم منّی؟
فیوٴمر بہ الی النّار، ویٴتی بمن زاد سوطاً،
فیقال لہ: لم فعلت ذٰلک؟
فیقول: لینتھوا عن معاصیک!
فیقول: اٴنت اٴحکم بہ منّی؟
فیوٴمر بہ الی النّار.

روزِ قیامت اس حاکم اور قاضی کو جس نے کسی خدائی حد میں سے کم کیا ہوگا میدانِ محشر میں پیش کیا جائے گا ۔
اور اس سے کہا جائے گا: تونے ایسا کیوں کیا؟
وہ کہے گا: تیرے بندوں پر رحکم اور مہربانی کرتے ہوئے ۔
پروردگار اُس سے کہے گا: کیا تو ان کے لئے مجھ سے زیادہ مہربان تھا؟
اس کے ساتھ ہی حکم ہوگا کہ اسے آتشِ دوزخ میں ڈال دو ۔
اس کے بعد ایک اور کو لایا جائے گا جس نے خدائی حد سے ایک تازیانہ زیادہ کیا ہوگا ۔
اس سے کہا جائے گا: تو نے ایسا کیوں کیا؟
وہ جواب میں کہے گا: تاکہ تیرے بندے تیری نافرمانی سے رُک جائیں ۔
الله فرمائے گا: کیا تو مجھ سے زیادہ آگاہ اور حکیم تھا؟
پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے بھی آتش جہنم میں لے جاوٴ (۱) ۔
۳۔ تیسراحکم یہ ہے کہ حد جاری کرتے ہوئے کچھ مومنین موجود ہوں کیونکہ اس سزا کا صرف یہ مقصد نہیں کہ گنہگار کو عبرت حاصل ہو بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی سزا دوسروں کے لئے بھی درس عبرت ہو ۔
انسانی معاشرے کی تشکیل اور بناوٹ سے یہ بات عیاں ہے کہ اخلاقی برائیاں صرف ایک شخص ہی میں نہیں رہتیں بلکہ معاشرے کی طرف بھی سرایت کرتی ہیں لہٰذا معاشرے کی تطہیر کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح کا گناہ برملا ہوا ہے سزا بھی برملا ہو ۔
اس گفتگو سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ اسلام ایک شخص کی عزّت دوسروں کے سامنے برباد ہونے کی اجازت کیوں دیتا ہے کیونکہ جب تک گناہ واضح نہ ہو اور مسئلہ اسلامی عدالت تک نہ پہنچے الله کہ جو ”ستار العیوب“ ہے پردہ دری پر راضی نہیں ہے لیکن جرم ثابت ہوجانے، راز کھل جانے، معاشرے کے آلودہ ہوجانے اور گناہ کو معمولی چیز سمجھے جانے کے بعد سزا اسی صورت میں ملنا چاہیے کہ گناہ کے منفی اثرات مٹ جائیں اور گناہ کی بڑائی کا احساس اسی طرح لوٹ آئے ۔
اصول طور پر ایک صحیح وسالم معاشرے میں قانون کی خلاف ورزی کو بہت اہم سمجھا جانا چاہیے، مسلّم ہے کہ اگر خلاف ورزی کا تکرار ہو تو اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور اس کی اہمت کا احساس بھی تبھی اجاگر ہوگا اگر خلاف ورزی کرنے والوں کو کھلے بندوں ہونا ہی ان کی سرکش ہواوہوس کے راستے میں بند باندھ دے گا ۔
زیرِ بحث آیت میں چونکہ زانی عورت اور زانی مرد کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے اس لئے مناسبت سے ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی عورت سے شادی کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ۔
تیسری آیت میں اس سوال کا جواب دیا جارہا ہے، ارشاد ہوتا ہے: زانی مرد سوائے زانیہ مشرک عورت کے شادی نہیں کرتا جیسا کہ زانی عورت سوائے زانی یا مشرک مرد کے کسی سے بیاہ نہیں کرتی (الزَّانِی لَایَنکِحُ إلاَّ زَانِیَةً اٴَوْ مُشْرِکَةً وَالزَّانِیَةُ لَایَنکِحُھَا إِلاَّ زَانٍ اٴَوْ مُشْرِکٌ) ۔ اور یہ کام مومنین پر حرام کیا گیا ہے (وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ) ۔
یہ آیت ایک حکم الٰہی بیان کرتی ہے یا یہ ایک خارجی معاملے کی خبر ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ آیت صرف ایک عینی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آلودہ دامن افراد ہمیشہ ناپاک افراد کے پیچھے ہی جاتے ہیں اور بقولے:
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
لیکن باایمان اور پاکباز افراد ہرگز آلودہ دامن اور ناپاک افراد کو جیون ساتھی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور انھیں اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں ۔
آیت کا ظاہری مفہوم اسی تفسیر کا شاہد ہے کیونکہ آیت ”جملہ خبریہ“ کی صورت میں ہے ۔
البتہ بعض دیگر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت ایک خدائی اور شرعی حکم بیان کررہی ہے اور خصوصیت سے اس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان زانی عورتوں اور مردوں سے شادی بیاہ سے اجتناب کریں کیونکہ جسمانی بیماریوں کی طرح عموماً اخلاقی بیماریاں بھی متعدی ہوتی ہیں اور ایک سے دوسرے میں سرایت کرجاتی ہیں جبکہ اس سے قطع نظر ایسے رشتے پاکدامن افراد کے لئے ننگ وعار کا بھی باعث ہیں، علاوہ ازیں ایسی اولاد جو مشکوک اور داغدار دامنوں میں پرورش پائے اس کا مستقبل محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتان اس بناپر اسلام نے ایسے رشتوں سے منع کیا ہے ۔
اس تفسیر کے لئے یہ جملہ شاہد ہے:
”وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ“
اس میں حرام قرار دینے کی تعبیر موجود ہے ۔
اس تفسیر کے لئے دوسرا شاہد وہ بہت سی روایات ہیں جو اس سلسلے میں پیغمبر اسلام اور آئمہ معصومین(علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کے مطابق یہ آیت ایک حکم بیان کررہی ہے یہاں تک کہ بعض مفسرین نے اس آیت کے لئے یہ شان نزول بھی لکھی ہے:
امّ نہرول دورِ جاہلیت میں ایک مشہور بدکار عورت تھی یہاں تک کہ اُس نے اپنی علامت اور ہیجان کے طور پر اپنے گھر کے دروازے پر ایک جھنڈا بھی گاڑ رکھا تھا، ایک مسلمان نے اس سے شادی کرنے کے لئے رسول الله سے اجازت چاہی تو یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں اس کے تقاضے کا جواب دیا گیا (۲) ۔
ایک اور حدیث امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:
یہ آیت ان مردوں اور عورتوں کے بارے میں ہے کہ جو رسول ا لله کے زمانے میں زنا سے آلودہ تھے، الله نے مسلمانوں کو ان سے شادی بیاہ کرنے سے منع کیا، نیز یہ حکم آج بھی باقی ہے کہ جو شخص اس عمل کی انجام دہی میں مشہور ہو اس پر الله کی حد جاری ہونا چاہیے اس سے اس وقت تک شادی نہیں ہونا چاہیے جب تک اس کی توبہ ثابت نہ ہوجائے (۳) ۔
اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ بہت سے احکام ”جملہ خبریہ“ کی صورت میں بیان ہوئے ہیں اور ضروری نہیں کہ احکام الٰہی ہمیشہ ”امر“ اور ”نہی“ کے جملوں کی صورت میں ہوں ۔
ضمناً توجہ رہے کہ مشرکین کا زانیوں پر عطف مطلب کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے ہے کیونکہ بعض روایات میں بھی آیا ہے کہ زانی جب اس کام کا ارتکاب کرتا ہے وہ ایمان سے دور سے ہوتا ہے ۔
رسول الله صلی الله علیہ آلہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے:
لایزن الزانی حین وھو موٴمن ولایسرق الساریق حین یسرق وھوموٴمن فانّہ اذا فعل ذلک خلع عنہ الایمان کخلع القمیص
جب کوئی زانی اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور اسی طرح جب کوئی چور چوری کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا کیونکہ اس فعل کے ارتکاب کے وقت اس کے سینے سے ایمان نکال لیا جاتا ہے جیسے لباس بدن سے اتار لیا جاتا ہے (۴) ۔
1۔ تفسیر کبیر، از فخر الدین رازی، ج۲۳، ص۱۴۸.
2۔ مجمع البیان زیرِ بحث آیت کے ذیل میں نیز تفسیر قرطبی میں اسی آیت کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے ۔
3۔ مجمع البیان زیرِ بحث آیت کے ذیل میں.
4 ۔ اصول کافی، ج۲، ص۲۶ (مطبعہ اسلامیہ ۱۳۸۸ھ (جیسا کہ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۷۱ پر درج ہے ۔
سوره نور / آیه 1 - 3۱۔ وہ مواقع جہاں زانی کی سزا ”موت“ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma