۲۔ ”اصمعی“ کی ہلادینے والی داستان

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ جس روز سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گے۳۔ سزا اور گناہ میں مناسبت
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اصمعی کی وہ داستان لکھی جائے کہ غزالی نے ”بحرالمحبّہ“ میں نقل کیا ہے، یہ داستان گزشتہ باتوں کی شاہد بھی ہے اور اس میں متعدد دیگر لطیف نکات بھی ہیں ۔
اصمعی کہتا ہے: میں مکہ میں تھا، ایک چاند رات تھی، میں خانہٴ خدا کے گرد طواف کررہا تھا، ایک بڑی دلنشیں اور غم انگیز آواز سن کر متوجہ ہوا، میں اس آواز والے کو تلاش کرنے لگا، اچانک میری نظر ایک خوبصورت اور خوش قامت جوان پر پڑی، نیکی کے آثار اس سے نمایاں تھے، اور اس نے خانہٴ کعبہ کا غلاف تھام رکھا تھا اور اس طرح سے مناجات کررہاتھا:
”یا سیّدی ومولای نامة العیون وغابت النجوم، واٴنت ملک حیّ قیّوم، لاتاٴخذک سنة ولانوم، غلقت الملوک اٴبوابھا واقامت علیھا حراسھا وحجابھا وقدخلی کل حبیب بحبیبہ، وبابک مفتوح للسائلین، فھا اٴنا سائلک ببابک، مذنب فقیر، خاطیء مسکین، جئتک اٴرجو رحمتک یا رحیم، واٴن تنظر الیٰ بلطفک یا کریم“.
”اے میرے سردار! اے میرے مولا! بندوں کی آنکھیں خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی ہیں، آسمان کے تارے ایک ایک کرکے افقِ مغرب میں اترتے جاتے ہیں اور آنکھوں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں، تو خدائے حیّ وقیّوم ہے، نہ تجھے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ تیرے دامنِ کبریائی کو چھوپاتی ہے، شب کی اس تاریکی میں جبکہ بادشاہوں نے اپنے محلّات کے دروازے بند کرلیے ہیں اور دربان ان پر پہرہ دے رہے ہیں، اور سب دوست اپنے دوستوں سے محو خلوت ہیںن ایسے میں ایک ہی گھر ہے جس کا دروازہ سائلوں کے لئے کھلا ہے اور وہ تیرے گھر کا دروازہ ہے ۔
اس وقت میں تیرے دروازے پر آیا ہوں، خطاکار اور حاجت مند ہوں، اے رحیم تجھ سے رحمت کی امید باندھے میں آگیا ہوں، اے کریم تو لطف وکرم کی نظر چاہتا ہوں ۔
پھر وہ جوان یہ اشعار پڑھنے لگا:
یا من یجیب دعاء المضطر فی الظلم
یا کاشف الکرب والبلوی مع السقم
قد نام وفدک حول البیت والتبھوا
وعین جودک یا قیوم لم تنم
ان کان جودک لایجو الاذو اشرف
فمن یجود علی العاصین بالنعم
ھب لی بجودک فضل العفو عن شرف
یا من اشار الیہ الخلق فی الحرم

اے وہ کہ جو شب کی تاریکوں میں مصیبت زدوں کی دعا قبول کرتا ہے
اے وہ کہ جو دکھ درد اور رنج وبلا کو دور کرتا ہے
تیرے گھر کے گرد تیرے مہمان سوتے بھی ہیں اور جاگتے بھی ہیں
لیکن، اے قیوم! تیرے جود وسخا کی آنکھ کبھی خواب آلود نہیں ہوتی
اگر تیرے جود واحسان کی امید صرف ان کے لئے ہوتی تو تیری بارگاہ میں باشرف ہیں، تو گناہگار
کس کے دروازے پر جاتے اور کس سے بخشش کی امید رکھتے
اپنے جود وکرم سے مجھے شرفیاب کر
اے وہ ذات کہ مخلوق حرم میں جس کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
اس کے بعد اس جوان نے آسمان کی طرف سر بلند کیا اور اس طرح اپنی مناجات جاری رکھیں
”الٰھی سیّدی ومولای! اٴن اطعبتک بعلمی ومعرفتی فلک المد والمنة علی ان عصیتک بجھل فلک الحجة علیّ“.
”میرے معبود! میرے سردار! میرے مولا! اگر میں نے علم ومعرفت کی بناء پر تیری اطاعت کی ہے تو حمد وثنا تیرے لئے ہی زیبندہ ہے اور میں تیرا مرہون منّت ہوں اور اگر نادانی کے باعث میں نے تیری نافرمانی کی ہے تو تیری حجّت میرے خلاف مکمل ہے“۔
پھر آسمان کی طرف سر بلند کیا اور بلند آواز میں کہا:
”یا الٰھی وسیّدی ومولای ما طابت الدنیا الّا بذکرک، وما طابت العقبی الّا بعفوک وما طابت الیّام الّا بطاعتک، وما طابت القلوب الّا بمحبتک، وما طابت النعیم الّا بمغفرتک“.
”اے میرے خدا! اے میرے آقا! اے میرے مولا! دنیا میرے ذکر کے بغیر پاکیزہ نہیں اور آخرت تیرے عفو کے بغیر شایستہ نہیں ہے، ایّام زندگی تیری اطاعت کے بغیر بے قیمت ہیں، دل تیری محبّت کے بغیر الودہ ہیں اور نعمتیں تیری بخشش کے بغیر ناکوار ہیں“۔
اس جوان نے مناجات کا سلسلہ یونہی جاری رکھت، کبھی اُس نے ہلادینے والے اور دل گذار اشعار پڑھے اور کبھی اسی طرح الله کو پکارتا رہا، یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑا ۔
میں اس کے قریب گیا، اس کے چہرے کے نور نے مجھے خیرہ کردیا، چاند کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی، میں نے جو غور سے دیکھا تو متوجہ ہوا کہ وہ تو زین العابدین علی بن الحسین امام سجاد علیہ السلام ہیں ۔
میں نے ان کا سر اپنے دامن میں رکھا، میں ضبط نہ کرسکا، ان کی حالت پر میں خوب رویا، میری اشکوں کا ایک قطرہ ان کے چہرے پر جاگرا، انھیں ہوش آیا تو آنکھ کھولی اور فرمایا:
من الّذی اشغلنی عن ذکر مولای؟
کون ہے کہ جو میرے مولا کے ذکر میں حائل ہوا ہے؟
میں نے عرض کیا: میں اصمعی ہوں، اے میرے سید وآقا!
یہ کیسا گریہ اور کیسا اضطراب، آپ تو خاندان نبوت ہیں، معدنِ رسالت ہیں، کیا آیتِ تطہیر آپ کے حق میں نازل نہیں ہوئی؟ کیا خداوندعالم نے آپ کے بارے میں نہیں فرمایا:
انمّا یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیراً
)بس الله کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیت! خدا تم سے رجس وناپاکی کو دور رکھے اور تمھیں اس طرح سے پاک رکھے جیسے پاک رکھنے کا حق ہے ۔
امامعلیہ السلام اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے اصمعی! ”ھیھات! ھیھات! الله نے جنت اطاعت کرنے والوں کے لئے خلق فرمائی ہے، چاہے وہ غلام حبشی کیوں نہ ہوں اور جہنم نافرمانوں کے لئے بنائی ہے چاہے وہ سردارِ قریش ہی کیوں نہ ہوں، کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا اور الله کی گفتگو نہیں سنی کہ:
<فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلَااٴَنسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَایَتَسَائَلُونَ....
جب صور پھونکا جائے گا اور قیامت آپہنچے گی تو سارے نسب ختم ہوجائیں گے، کوئی کسی سے سوال نہ کرے گا، صرف اعمال ہی پر دارومدار ہوگا“۔
اصمعی کہتا ہے: میں نے دیکھا تو وہاں سے اُٹھا، آپعلیہ السلام کو وہاں چھوڑا اور خود ایک طرف چل پڑا (1) ۔
1۔ بحر المحبّة از غزالی، ص۴۱تا۴۴. (کچھ تلخیص کے ساتھ) ۔
۱۔ جس روز سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گے۳۔ سزا اور گناہ میں مناسبت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma