۳۔ اکثریت حق کی طرف نہیں ہوتی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۲۔ رہبر کی صفاتسوره مؤمنون / آیه 75 - 80
وہ کونسی ”اکثریت“ قرآن نے بہت سی آیات میں اور زیرِ نظر آیات میں بھی جس کی مذمّت کی ہے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں اچھائی اور برائی کا فیصلہ معاشروں کی اکثریت کی بنیادپر ہوتا ہے، یہ مسئلہ بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے ۔
ہم ان آیات کے بارے میں بحث نہیں کرتے کہ جو زیادہ تر کفار ومشرکین اور اسی قسم کے لوگوں سے متعلق ہیں، ان میں ”اکثر“ کے ساتھ ”ھم“ کی ضمیر آئی ہے، ہم یہاں ان آیات کے بارے میں بات کرتے ہیں جو لوگوں ”اکثرالناس“ کا عنوان رکھتی ہیں ۔ مثلاً:
<وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَشْکُرُونَ
”لیکن اکثر لوگ شکرگزار نہیں ہیں“۔
)بقرہ/۲۴۳(
<وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُونَ
”لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے “۔
)اعراف/۱۸۷(
<وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُونَ
”لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “۔
)ہود/۱۷(
<وَمَا اٴَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ
”اگرچہ تو کوشش کرے اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے“۔
)یوسف/۱۰۳(
<فَاٴَبیٰ اٴَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُورًا
”اکثر لوگ کفر اور انکار حق کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے“۔
)بنی اسرائیل/۸۹(

<وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ
”اگر تو روئے زمین کے اکثر لوگوں کی اطاعت کرے تو وہ تجھے راہ حق سے بھٹکادیں“
)انعام/۱۱۶(
دوسری طرف قرآن مجید میں ایسی آیات بھی ہیں کہ جو مومنین کی اکثریت کے طریقے کو ایک صحیح معیار قرار دیتی ہیں، سورہٴ نساء کی آیت ۱۱۵ میں ہے:
<وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَھَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا
”جو شخص رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کے علاوہ کوئی راہ اپنائے، جس طرف وہ چل رہا ہے ہم اسے اسی طرف لے جائیں گے اور دوزخ میں پہنچائیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے“۔
روایات میں سے جو باہم متعارض ہوں، وہاں قانون یہ ہے کہ اس روایت کو ترجیح دی جاتی ہے کہ جو آئمہٴ ہدیٰ کے اصحاب وانصار اور پیروکاروں میں مشہور ہو، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”ینظر الیٰ ماکان من روایتھما عنّا فی ذٰلک الذی حکما بہ المجمع علیہ عند اصحابک فیوٴخذ بہ من حکمنا ویترک الشاذ الذی لیس بمشہور عنداصحابک فانّ المجمع علیہ لاریب فیہ“.
”جب دو قاضی اختلافِ روایت کی بنیاد پر اختلاف کریں تو دیکھنا چاہیے کہ ان دو روایات میں سے کونسی تیرے اصحاب کے ہاں قبول کی جاتی ہے، وہی روایت انتخاب کرنا چاہیے اور جو روایت اصحاب کے ہاں مشہور نہیں اسے چھوڑدینا چاہیے، کیونکہ مشہور روایت میں کوئی شک وشبہ نہیں“(1)۔
نیز نہج البلاغہ میں ہے:
”والزموا السواد الاعظم، فانّ ید اللّٰہ مع الاجماعة، وایّاکم والفرقة، فانّ الشاذ من الناس للشیطان، کما انّ الشاذ من الغنم للذئب“.
”ہمیشہ بڑے گروہ کے ساتھ رہو، کیونکہ الله کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے، اور انتشار سے بچو کیونکہ انسان شیطان کا حصّہ ہے جیسے اکیلی بھیڑ بھیڑیے کا لقمہ ہے(2) ۔
نہج البلاغہ میں ہے:
والزموا ما عقد علیہ حبل الجماعة.
جو جماعت کی رسی سے منسلک ہو اسے نہ چھوڑو ۔
ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ ان دو طرح کی آیات اور روایات میں کوئی تضاد ہے، دوسری طرف یہ بھی خیال ہوسکتا ہے کہ اسلام جمہوری حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتا، کیونکہ جمہوریت لوگوں کی اکثریت آراء پر مبنی ہے، جبکہ قرآن اس کی شدید مذمت کرتا ہے ۔
لیکن مذکورہ بالا آیات وروایات میں تھوڑا سا غور وخوض کرنے سے اور ان کا باہمی موازنہ کرنے سے حقیقی مفہوم واضح ہوجاتا ہے ۔
حاصل کلا م یہ ہے کہ اکثریت اگر مومن آگاہ اور راہِ حق پر گامزن ہو تو ان کی آراء اور نظریات محترم ہیں اور اکثر اوقات حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں اور ان کی پیروی لوگوں کرنا چاہیے ۔
لیکن اکثر جاہل اور ناآگاہ افراد پر مشتمل ہو یا وہ لوگ آگاہ ہوں تو ہوں، مگر خواہشات نفسانی کے اسیر ہوں تو پھر عموماً ان کے نظریات منحرف ہوں گے اور قرآن کے بقول ان کی پیروی انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے ۔
ایک حقیقی اور صحیح جمہوریت کے لئے کوشش کرنا چاہیے کہ عام لوگ باخبر اور مومن ہوں، اس کے بعد ہی اکثریت کی آراء اجتماعی مقاصد کی پیش رفت کامعیار بن سکتے ہیں ورنہ جو جمہوریت گمراہ اور اکثریت کے نظریات پر مبنی ہو ، وہ معاشرے کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے ۔
اس امر کاذکر بھی ضروری ہے کہ ہمارے عقیدے کے مطابق باخبر، رشید اور باایمان اکثریت کے نظریات بھی اسی صورت میں محترم ہیں جب وہ حکم الٰہی اور کتاب وسنت کے برخلاف نہ ہوں ۔
بات کہنے کی یہ ہے کہ آج معاشروں کے پاس قانون سازی اور معاشرتی امور کے لئے کثرت آراء کے کلیے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں کہ وہ جس کی طرف پناہ لیں، انھوں نے آسمانی کتابوں اور انبیاء الٰہی کے طرزِ عمل کو یکسر نظر انداز کردیا ہے ۔
اس کے علاوہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناآگاہی وجہالت کے ساتھ ساتھ مفاد پر ستی اور ذاتی اغراض بھی شامل ہوتی ہیں، لیڈر حضرات آسانی سے پراپیگنڈے کے ذریعہ ایسے لوگوں کے اپنے پیچھے لگالیتے ہیں، لہٰذا تعداد کی اکثریت کو معیار قرار دیا گیا ہے تاکہ کسی بھی آواز اور شور واحتجاج کو اکثریت کے نام پر خاموش کیا جاسکے، اگر ہم دور حاضر میں مختلف ملکوں پر حاکم نظاموں اور قوانین پر غور وفکر کریں تو واضح ہوگا کہ ان کی بہت سی بدبختیاں جاہل وبے علم اکثریت کی آراء کو اپنا نے کی وجہ سے ہیں ۔
اکثریت کی بنیاد پر ایسے ایسے گندے اور قبیح قوانین بنائے گئے ہیں کہ جن کے ذکر سے بھی شرم آتی ہے اور آگ کے کتنے شعلے اسی ناگاہ اکثریت کی وجہ سے بھڑکے ہیں اور کیسے کیسے مظالم کی غیر مومن کی اکثریت نے تائید کی ہے ۔
1۔ وسائل الشیعہ ، ج۱۸، ص۷۶، کتاب القضاء، باب۹ ا، (از ابواب صفات قاضی)
2۔ نہج ابلاغہ، خطبہ۲۲۱۲۷.
۲۔ رہبر کی صفاتسوره مؤمنون / آیه 75 - 80
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma