جہالت میں ڈوبے ہوئے دل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره مؤمنون / آیه 62 - 67سوره مؤمنون / آیه 68 - 74

گذشتہ آیات میں مومنین کی نمایاں صفات کی گئی ہیں، یہی وہ صفات ہیں جو ہر نیکی کا سرچشمہ ہیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر شخص کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایسی صفات کا حامل ہو اور ایسے اعمال انجام دے سکے ۔
اس سلسلے میں زیرِ نظر پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: ”ہم کسی شخص کو اس کی توانائی سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتے“ اور ہر شخص سے اس کی طاقت اور عقل کے مطابق تقاضا کرتے ہیں (وَلَانُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا) ۔
یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ الله تعالیٰ نے انسانوں پر جو فرائض عائد کئے ہیں اور جو احکام دیئے ہیں وہ ان کی توانائی کی حدود میں ہیں اور جن مواقع پر کس حکم پر عمل کرنا انسان کے بس میں نہ ہو، وہاں وہ حکم ساقط ہوجاتا ہے، علماء اصول کے مطابق یہ کلیہ تمام احکام اسلام پر لاگو ہوتا ہے اور ان پر مقدم ہے ۔
ممکن ہے پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ کیسے ممکن ہے کہ انسانوں کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کا حساب اور جانچ پڑتال ہوسکے اس ضمن میں مزید فرمایا گیا ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے کہ حق بات کہتی ہے (اور تمام بندوں کے اعمال اس میں ثبت ہیں) لہٰذا کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی (وَلَدَیْنَا کِتَابٌ یَنطِقُ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَایُظْلَمُونَ) ۔
یہ ان اعمال ناموں کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں انسانوں کے تمام اعمال ریکارڈ کئے گئے ہیں اور وہ خدا کے پاس محفوظ ہیں یہ انسانی اعمال کی ایسی ڈائریاں ہیں کہ گویا نردبان رکھتی ہیں اور حق بات بیان کرتی ہے، اس طرح کہ انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اس کتاب سے مراد کہ جو الله کے پاس ہے ”لوح محفوظ“ ہے اور ”لدینا“ (ہمارے پاس) کی تعبیر اس تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔
بہرحال زیرِ بحث آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان اعمال کا ایک ذرّہ بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور تمام اعمال کا تڑی توجہ سے دیکارڈ مرتب ہوگا، اس حقیقت پر ایمان نیک لوگوں کو کارِخیر کا شوق دلاتا ہے اور بڑے کام سے بچاتا ہے ۔
”ینطق بالحق“ (حق کی بات بیان کرتی ہے) یہ جملہ انسانی اعمال کی توصیف ہے، فارسی میں بھی ہم کہتے ہیں:
فلاں نامہ بقدر کافی گویا است
فلاں خط منھ بولتا ہے ۔
یعنی اس کی تشریح و توضیح کی ضرورت نہیں، گویا خود بولتا ہے، اس کے لئے سر کھپانے کی ضرورت نہیں یہ تو خود حقائق واضح کررہا ہے ۔
”وھم لایظلمون“ بھی اس طرف اشارہ ہے کہ اعمال کا ریکارڈ اگر باریک بینی سے مکمل تیار کیا گیا ہے تو پھر ظلم وزیادتی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی لیکن یہ حقائق بیان کرنے کا اثر صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو کچھ بیداری وآگاہی رکھتے ہوں، لہٰذا ساتھ ہی مزید فرمایا گیا: لیکن یہ ہٹ دھرم کافر لوگ یوں جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ روزِ حساب پیش ہونے والے نامہٴ اعمال سے اور قرآن کے وعدہ ووعید سے بالکل غافل ہیں ۔ (بَلْ قُلُوبُھُمْ فِی غَمْرَةٍ مِنْ ھٰذَا) (1) ۔
جہالت کا یہ عالم انھیں اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان واضح حقائق کا مشاہدہ کریں، اپنے اندر جھانکیں اور الله کی جانب پلٹ آئیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اس کے علاوہ بھی ایسے اعمال انجام دیتے رہتے ہیں (وَلَھُمْ اٴَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذٰلِکَ ھُمْ لَھَا عَامِلُونَ(
مفسرین نے ”وَلَھُمْ اٴَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذٰلِکَ“ کے بارے میں مختلف تفسیریں ذکر کیں ہیں ۔
بعض نے اسے غلط اور قبیح اعمال کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو جہالت ونادانی کی وجہ سے ان سے سرزد ہوتے ہیں (اس بناء پر ”ذلک“ ان کی جہالت کی طرف اشارہ ہے) اور ”اعمال“ ایسے گناہوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس راستے میں ان سے سرزد ہوتے ہیں ۔
بعض نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ وہ کافرانہ عقیدے کے حامل ہونے کے علاوہ اعمال بھی بہت قبیح انجام دیتے ہیں ۔
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ان کافروں کا طرزِ عمل مومنوں سے بالکل جُدا ہے اور دونوں کے راستے الگ ہیں ۔
نتیجے کے طور پر ان تفسیروں میں کوئی اختلاف نہیں اور انھیں ایک مجموعی تفسیر میں یکجا کیا جاسکتا ہے، البتہ اس امر کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ان کے شرمناک اعمال کی بنیاد وہی ان کے دلوں کا جہالت میں ڈوب جانا ہے ۔
لیکن وہ اس طرح عالم ِ غفلت میں رہیں گے ”یہاں تک کہ وہ دن آپہنچے گا جب ہم مالدار عیش پرستوں کو گرفتارِ عذاب کریں گے، اس وقت وہخ تلمائیں گے اور بلبلائیں گے“ اور الله کے شدید عذاب اور دردناک سزا پر فریاد کریں گے (حَتَّی إِذَا اٴَخَذْنَا مُتْرَفِیھِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا ھُمْ یَجْاٴَرُونَ(
لیکن ان سے کہا جائے گا: بندکرو یہ آہ وزاریاں کیونکہ آج کے دن ہم تمھاری کوئی مدد نہیں کریں گے (لَاتَجْاٴَرُوا الْیَوْمَ إِنَّکُمْ مِنَّا لَاتُنصَرُونَ) ۔
یہاں پر خصوصیت ”مترفین“ (ناز ونعمت میں غرق افراد) کا ذکر کیا گیا ہے، جبکہ گناہگار صرف وہ نہیں ہوتے یہ اس لئے ہے کہ یہی لوگ گمراہی کے سردار ہیں، یا پھر اس لئے ہے کہ انھیں زیادہ دردناک سزادی جائے گی ۔
ضمناً ”عذاب“ سے یہاں مرادہوسکتا ہے، عذاب دُنیا، یا عذاب آخرت ہو یا پھر دونوں ہیں، یعنی اس جہان میں اُس جہان میں جب عذاب الٰہی انھیں دامن گیر ہوتا ہے تو وہ بلبل اُٹھتے ہیں اور فریاد کرتے ہیں، لیکن ان واضح ہے کہ اس دم معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور واپسی ممکن نہیں ہوتی ۔
اگلی آیت در حقیقت اس منحوس انجام کی علت بیان کررہی ہے، ارشاد ہوتا ہے: میری آیات مسلسل تمھارے سامنے پڑھی جایا کرتی تھیں، لیکن بجائے اس کے تم اُن سے سبق لیتے اور بیدار ہوتے، تم منھ موڑ لیتے تھے اور الٹے پاوٴں بھاگ جاتے تھے (قَدْ کَانَتْ آیَاتِی تُتْلَی عَلَیْکُمْ فَکُنتُمْ عَلیٰ اٴَعْقَابِکُمْ تَنکِصُونَ(
”تَنکِصُونَ“ ”نکوص“ کے مادہ سے پیچھے ہٹنے کے معنی میں ہے ”اعقاب“ ”عقب“ (بروزن ”جھش“ ) کی جمع ہے اور ”عقب“ پاوٴں ایڑی کے معنی میں ہے، مجموعی طور پر اس جملے سے ایسے افراد مراد کہ جو جو نامرعوب باتیں سن کر ایسے پریشان ہوتے ہیں کہ ایڑیوں کے بل تیزی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔
آیاتِ الٰہی سن کر وہ نہ صرف الٹے پاوٴں ہٹ جاتے ہیں بلکہ غرور کامظاہرہ بھی کرتے ہیں (مُسْتَکْبِرِینَ بِہِ)(2) ۔
اس کے علاوہ تم رات کو بیٹھکیں جماتے تھے اور رسول، قرآن اور مومنین کی بدگوئی کرتے تھے (سَامِرًا تَھْجُرُونَ) ۔
”سَامِرًا“ ”سمر“ (بروزن ”ثمر“ )کے مادہ سے ”رات کی باتوں“ کے منی میں ہے، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس مادہ کا اصلی معنیٰ ”رات میں چاند کا سایہ“ ہے کہ جس میں تاریکی اور روشنی کی آمیزش ہوتی ہے اور رات کی باتیں کبھی کبھی چاند کی روشنی میں ہوتی ہیں ۔ مشرکین عرب کے بارے میں منقول ہے کہ وہ چاند راتوں میں کعبہ کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور رسول الله کے خلاف باتیں کرتے تھے، یہ لفظ اسی ضمن میں استعمال ہوا ہے، یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ گندمی رنگ افراد یا خود گندم کو ”سمراء“ کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ کہ اس کی سفیدہی میں کچھ سیاہی بھی ملی ہوتی ہے ۔
”تھجرون“ ”ھجر“ (بروزن”فجر“ )کے مادہ سے جدائی اختیار کرنے کے معنی میں ہے، بعد ازاں یہ لفظ بیمار شخص کے ہذیان اور یاوہ گوئی کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا، کیونکہ اس حالت میں وہ نامناسب اور دور کرنے والی باتیں کرتا ہے، نیز ”ھجر“ (بروزن ”کفر“ گلیاں دینے کے معنیٰ میں آیا ہے اور یہ بھی دوری اور جدائی کا سبب ہے ۔
زیرِ بحث آیت میں یہ آخری معنیٰ مراد ہے، یعنی راتوں کو دیر تک جاگتے رہتے ہو اور بیماروں کی طرح ہذیاں بکتے ہو اور گالیاں دیتے رہتے ہو ۔
بے منطق اور کمزور افراد کا یہی طریقہ ہے کہ وہ روزِ روشن میں دلیری کے ساتھ منطق اور دلیل کا سہارا لینے کی بجائے رات کی تاریکی میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں تو اپنے بُرے مقاصد کے پیش نظر اور داخلی شکست کی تکسین کے لئے گالیاں بکنا شروع کردیتے ہیں ۔
قرآن کہتا ہے کہ تمھارے اپنے برے انجام اور تم پر الله کے دردناک عذاب کا سبب یہ ہے کہ نہ تو تم جرئت کرکے حق کو قبول کرتے تھے اور نہ ہی انکساری سے آیات الٰہی کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے تھے اور نہ ہی پیغمبر سے تمھارا طرزِ عمل اور درست تھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہو تم راہ حق پالیتے ۔
۔ نامہٴ اعمال کے بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد ۱۳ سورہٴ بنی اسرائیل آیت ۱۳ کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں، اسی طرح سورہٴ کہف آتت نمبر ۴۹ کے ذیل میں کچھ گفتگو کی جاچکی ہے.
۔ اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ ”بہ“ کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے، بعض کہتے ہیںکہ یہ مسجد الحرام اور حرم مکّہ کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ وہ لوگ اپنے تئیں خانہٴ کعبہ کا متولی سمجھتے ہوئے تکبر کرتے تھے، لیکن یہ احتمال ضعیف ہے، کیونکہ گذشتہ آیات میں کعبہ اور حرم کا کوئی ذکر نہیں، ظاہری مفہوم کے اعتبار سے یہ ضمیر رسول الله کی طرف لوٹتی ہے، یعنی تم رسول الله اور آیات قرآن کے مقابلے میں تکبر کرتے تھے، یا پھر الٹے پاوٴں جانے کی طرف اشارہ ہے کہ اس طرح تم تکبر اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے تھے ۔
سوره مؤمنون / آیه 62 - 67سوره مؤمنون / آیه 68 - 74
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma