فصل پنجم : شادی شدہ زندگی کے سات سخت موانع

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
فصل چہارم : وہ وزنجیریں جس نے جوانوں کے ہاتھ پیروں کو جکڑ لیا ہےچھٹی فصل : سختی سے کا م لینے والے والدین

بہت سے <قبیح اور قابل اجتناب مسائل ایسے ہیں جنہیں ہم زندگی کا نام دیتے ہیں جبکہ انسے پرہیز کرناضروری ہے ۔ بہت سی ایسی مشکلات جنہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تقدیر نے ہمیں اس میں پھنسا دیا ہے ، جبکہ اس مشکل کے جال کو ہم نے خود بنا ہے ۔ ہماری زندگی کی اکثر مشکلات اعتراضات کرنا ، بہانے کرنا، ضد کرنا،سب ہماری انہیں قبول نہ کرنے کے نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں، خود حقیقی و واقعی مشکل کے مقالبہ نہیں ۔
ایرانی افسانوں کے ہیرو < رستم کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ملک کے ان بعض حصوں کو تسخیرفتح اور تسخیر کرنا چاہا جسے اس وقت تک کوئی نہیں کر سکا ۔
اس نے اس خطے کے قلب تک پہنچنے میں سات بڑی رکاوٹوں کا جنمیں ہر ایک دوسرے سے زیادہ قوی اور وحشتناک تھی مقابلہ کیا، کبھی سفید دیو اور کبھی جن و بھوت کی شکل والے اژدھے اور کبھی خطرناک جادوگروں کا سامنا کرکے اپنی ہمت و مہارت اور بے مثل بہادری سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ساتوں مرحلوں کو طے کرکے کامیابی کو گلے لگا لیا، جسکو ایران کے رزمیہ شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔
یہ افسانہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کے انبار کا ایک شاعرانہ مجسمہ ہے جو مشکلات کی زیادتی کامیابی و کامرانی کے راستوں کی نشاندہی اور مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتاہے ۔
آج کے معاشرے میں شادی کا مسئلہ اور اس کی مشکلات کا مقابلہ کرنا ، رستم کے سات موانع کے مقابلہ سے ذرا بھی میل نہیں کھاتا، اگرچہ سب جوان رستم والی قدرت و شجاعت اور ساتوں رکاوٹیں پیچھے چھوڑ دینے والا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں ، یا آج کے جوانوں میں ایسا عزم و ارادہ سرے سے نابود ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اسبات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ شادی کے مسئلہ نے بڑی حد تک اپنی اصلی اور فطری صورت متغیر کر لی ہے اور اس طرح اسنے ایک نقصان پہنچانے والا اورزحمتیں دینے والا پیکر اختیار کر لیا ہے ۔
جوانوں اور والدین کے تمام تر نالے فریاد اور شکایتیں یہ ہی ہیں کہ شادی کے اخراجات ناقابل برداشت ہیں شادی کی اس متغیر صورت کی طرف سب کا اشارہ ہوتا ہے بنیادی طور پر اس مسئلہ کی اساس ان تمام بد بختی اور پریشانیوں سے ہٹ کر پاکیزگی اور تقدس پر اسطوار ہے ۔
موجودہ حالات بہت سے افراد کے لیے شاد ی سونے کی ایسی کان سے سونا نکالناہے جو اس قدر مخلوط اور آلودہ ہے کہ اس میں سے زحمت کرکے سونا نکالنا ہی سودمند نہیں ہے ۔یہ مواد جو مخلوط اور آلودہ ہے وہ اس کی مثال شادی میں دیکھنا، دکھانا خیالی مثال ، شان و شوکت ، غلط آداب و رسوم ، ہوس بازی ، کسب ، افتخار ، و خیالی عزت و آبرو حاصل کرنا ہے ۔
شادی کے مسئلے نے مشکلات کے اس انبار میں اپنے اصلی چہرے کو پوری طرح مسخ کر لیا ہے اور ایک جنگلی جن و بھوت اور خوفناک صورت اختیار کر لی ہے جسکا سامنا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔
اور سب سے بدترحال یہ ہے کہ کم لوگ ایسے ہیں جو شجاعت کے ساتھ ان خرافات اور بیہودہ باتوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ ان حالات میں جاہلوں سے بد تر نظر آتے ہیں، اور آج کے لوگ پرانوں کے مقابلہ میں کمزور و نا تواں ہیں ۔
اکثر افراد اس طرح کی غلط دلیلیں پیش کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ < آخر انسان زندگی میں کتنی بار شادی کرتاہے کہ اسے سادگی سے انجام دیا جائے ؟ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اپنی آخری آرزوئیںپوری کر لیں اور اپنی دلی خواہشات کو عملی جامہ پہنا لیں!
وہ اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ کہ یہ غلط استدلال بقیہ تمام جوانوں اور خود ان کی سعادتمندی اور خوش نصیبی کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔
جوانوں کو چاہےے کہ جوانمردی کے ساتھ سات رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے رستم کی طرح اس لمبے راستے کو طے کریں اور اس طرح کے جادوئی طلسم کو توڑ ڈالیں ۔ اگر آپ حیران نہ ہوں اس راستے کی بھی سات رکاوٹیں ہیں <رستم کے راستے کی طرح اور یہ مندجہ ذیل ہیں:
۱۔ لا محدود امیدیں اور خواب لڑکیوں کی لڑکوں سے اور لڑکوں کی لڑکیوں سے امیدےں اور ماں باپ کی دونوں سے ۔
۲۔ ماں باپ اور رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے بے وجہ مشکلات پیداہونا ۔
۳۔ بڑی مقدار میں مہر کا ہونا جو کمر توڑ ثابت ہوتاہے ۔
۴۔ شادی کے مراسم کے لیے بے جا انتظامات جو ہزاروں گنا شادی کے پہلے اور بعد میں کئےے جاتے ہیں ، اور جو خطرناک چشمک کا باعث ہوتے ہیں ۔
۵۔ دو خاندانوں کے کفو اور ہم شان ہونے میں بے جا اعتراضات۔
۶۔ حد سے زیادہ عشق جو کنٹرول سے باہر ہو اور جسکا کوئی حساب و کتاب نہ ہو۔
۷۔ ایک دوسرے کے لیے حد سے سوا غلط فہمیاں پیدا ہونا ، ایک دوسرے پر آئندہ زندگی کے لیے اعتماد کا نہ ہونا ۔
جب ہم ان ساتوں مشکلات کے بارے میں غور کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ اکثر مشکلات کا شادی کے مسئلہ سے کوئی ربط نہیں ہے جو بھی ہے وہ اسکے حواشی اور بے وجہ چیزوں سے ہے ۔
”ہم رتبہ ہونا“ یا اصطلاح میں ایک دوسرے کا کفو ہونا یہ مسئلہ قابل بحث ہے اس موضوع کو بہت سے لوگ شادی میں رکاوٹ کا ایک بڑا سبب تصور کرتے ہیں جبکہ اس میں تحریف سے کام لیا گیا ہے اور حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ایک جوان جو خود بیان کرتا ہے : کہ وہ ایک تیل کمپنی میں انجینیئر ہے اور اسکی تنحواہ بھی کافی اچھی ہے، عمر ۳۰ سال ہو چکی ہے مگر ابھی تک شادی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ، شکایت و فریاد کر رہا تھا ۔ اسکا بیان ہے: کسی بھی خاندان کی لڑکی سے شادی نہیں کی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ ایک ایسا خاندان تلاش کیا جائے جو لائق احترام صاحب شخصیت اور میرے ہم رتبہ ہو، لیکن جب بھی کسی ایسے خاندان کا پتہ چلتاہے اور ہم شادی کی بات شروع کرتے ہیں تو شادی اور اسکے شرائط اور اخراجات کی فہرست اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ جسکا حساب الکڑونک دماغ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتاہے ۔
میں نے اس جوان سے کہا کہ تمہاری مراد لائق احترام ، باشخصیت ہم رتبہ خاندان سے کیا ہے ؟ کیا اس سے مراد پڑھا لکھا صاحب علم خاندان ہے ؟ میں بہت سے ایسے خاندانوں سے واقف ہوں جنکے یہاں پڑھی لکھی گریجویٹ لڑکیاں ہیں اور وہ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اگر تمہاری مراد اس سے عالی صفات اور اخلاقی اقدار والے خاندان ہیںیا جسمی اور بدنی امتیازات رکھنے والے خاندان ہیں تو اس طرح کے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ، غریب و نادار ضرور ہیں لیکن اصیل اور نجیب ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے ۔
لیکن میں سمجھتاہوں کہ تمہاری مراد ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مراد ایسے خاندان سے ہیکہ لڑکی کے چچا زاد بھائی یہاں وہاں کے مینیجر اور رئیس کل ہوں ، اسکے ماں باپ مالدار ،ثروتمند ،گاڑی بنگلہ ، زرق و برق زندگی رکھنے والے ہوں ۔ کیا تمہارا مطلب یہ نہیں ہے؟ میں نے دیکھا کہ اسکا مطلب یہ ہی تھا ۔
میں نے اس سے کہا کہ تم نے اپنی اس زندگی میں اتنی بڑی خطا کا ارتکاب کیا ہے کہ صاحب شخصیت کا مطلب ان امور میں صاحب شخصیت ہونابنا لیا ہے نہ یہ کہ انسانی حقیقت کے اعتبار سے صاحب شخصیت ہو اسلئے ضروری ہے تم اسی طرح د تکارو عذاب سے دو چار رہو۔
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اسلامی روایات میں آپ دیکھتے ہیں کہ” ہم رتبہ ہونا “اس مسئلہ کا غلط مفہوم اس زمانے میں معاشرے اور قبیلوں کے درمیان اس شدت کے ساتھ رائج تھا جسکا پوری قوت کے ساتھ اسلام نے مقابلہ کیا اور اس غلط مفہوم کا خاتمہ کیا، اور ایمان کی بنیاد پر عوام کے مردوں اور عورتوں، لڑکے اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کا کفو یا ہم رتبہ قرار دیا ۔
اسلامی روایات میں ہم یہ ہی پڑھتے ہیں کہ ” المئو من کفوء المئومن“ مومن کا ہم رتبہ مومن ہی ہو سکتا ہے ۔ہر صاحب ایمان چاہے وہ کسی بھی خاندان، قبیلے ، قو م اور طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ دوسرے مومن کا ہم رتبہ ہوتا ہے ۔
اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان توھمات کا خاتمہ کر دیا جائے جو طبقاتی معاشرے میں فرقہ وارانیت زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ دونوں فریق شادی کی بنیاد انسانی اقدار اور عقل و منطق پر اسطوار کریں بغیر کسی لالچ کے مثلا لڑکی کے چچا زاد بھائی فلاں پوسٹ پرہیں یا وہ لوگ صاحب ثروت ہیں ،گاڑی بنگلے والے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو یقینا یہ تمام مشاکل خود بخود حل ہو جائیںگے اور شادی کی بقیہ مشکلات بھی اسی کے مانند ہیں ۔


فصل چہارم : وہ وزنجیریں جس نے جوانوں کے ہاتھ پیروں کو جکڑ لیا ہےچھٹی فصل : سختی سے کا م لینے والے والدین
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma