چونکہ ہم اس عالم خلقت کے عجائبات کے در میان زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہم ان حیرت انگیز مخلوقات کی اہمیت سے اکثر غافل رہ جاتے ہیں ،مثال کے طور پر :
۱۔ہمارے ارد گرد بہت چھوٹے چھوٹے حیوانات اور حشرات پائے جاتے ہیں۔ کہ شایدان میں سے بعض کا جسم ایک یادو ملی میٹر سے زیادہ نہیں ہو گا ،پھر بھی یہ حیوانات ایک بڑے حیوان کے مانند ہاتھ پاؤں ،آنکھیں اور کان،یہاں تک کہ دماغ وہوش ،پٹھوں کا سلسلہ اور نظام ہاضمہ رکھتے ہیں۔
اگر ہم ایک چیونٹی کے دماغ کو مائیکر و سکوپ کے نیچے رکھ کر اس کی حیرت ناک بناوٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا عجیب اور دلچسپ بناوٹ ہے !اس کے مختلف حصے،جن میں سے ہر ایک حصہ اس چیونٹی کے چھوٹے سے اندام کے ایک حصہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے،ایک دوسرے کے ساتھ منظم صورت میں قرار پائے ہیں اور ان کی حالت میں معمولی سا خلل ان کے بدن کے ایک ہی حصہ کو مفلوج کر تا ہے۔
تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ اس چھوٹے سے دماغ میں، جو یقینا ایک پن کی نوک سے بھی بہت چھوٹا ہے،ہوش،ذہانت ،تمدن ،ذوق اور ہنر کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔بہت سے سائنسدانوں نے سالہا سال تک اس حیوان کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کر نے میں اپنی عمر صرف کی ہے اور اس کے بارے میں دلچسپ اور حیرت انگیز نکات اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں۔
کیا جس نے اس قسم کے ایک چھوٹے سے حشرہ میں اس قدر ہوش،فطانت اور ذوق کو جمع کر دیا ہے ،وہ ایسی طبیعت ہو سکتی ہے جس میں ایک سوئی کی نوک کے برابر ہوش وذہانت نہ ہو؟
۲۔ایٹم کی پراسرار دنیا کے بارے میں ،ہم جانتے ہیں کہ سب سے چھوٹی مخلوق جس کے بارے میں بشر کو اب تک معلو مات حاصل ہوئی ہیں ایٹم اور اس کے اجزاء ہیں۔ایٹم اتنا چھوٹا ہے کہ طاقتور ترین مائیکرو سکوپ ،جو ایک تنکے کو پہاڑوں کی شکل میں دکھاتا ہے ،وہ بھی اسے دیکھنے میں عاجز ہے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ایٹم کتنا چھوٹا ہے،تو بس اس قدر جانئے کہ پانی کے ایک قطرہ میں روئے زمین کی پوری آبادی سے زیادہ ایٹم موجود ہیں ۔اگر ہم ایک سینٹی میٹر باریک ترین تار کے پرو ٹونوں کو گننا چاہیں اور ایک ہزار افراد سے مدد بھی لیں اور ہر سیکنڈ میں ہر شخص ایک پرو ٹون کو جدا کرے تو ۳۰سے ۳۰۰ سال تک ایٹموں کے اختلاف کے مطابق ہمیں دن رات بیدار رہنا پڑے گا تاکہ ان کو گن سکیں۔
اب جبکہ ہمیں معلوم ہوا کہ ایک سینٹی میٹر باریک تار میں اس قدر ایٹم موجود ہیں، تو ذراسوچئے آسمان ،زمین ،آب وہوا،کہکشانوں اور ہمارے منظومہ شمسی میں کتنے ایٹم ہو ں گے ؟کیا انسان کا ذہن اس کے تصور سے خستہ نہیں ہو جائے گااور خالق کائنات کے علاوہ کوئی اس کا حساب لگا سکتاہے؟
ایٹم ،توحید کا درس دیتے ہیں
آج کل کی سائنسی بحث میں ایٹم شناسی اہم ترین بحث ہے ۔یہ انتہائی چھوٹی مخلوق ہمیں توحید کا درس دیتی ہے،کیونکہ ایٹم کی دنیا میں دوسری چیزوں سے زیادہ اس کے مندرجہ ذیل چار نکتے توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتے ہیں:
۱۔غیر معمولی نظم وضبط۔ اب تک ایک سو سے زیادہ عناصر منکشف ہوئے ہیں ۔ان کے الیکٹرون تدریجاً ایک سے شروع ہو کر ایک سو سے زیادہ پر ختم ہوتے ہیں ۔یہ عجیب نظام ہرگز کسی بے شعور عامل کا پیداوار نہیں ہو سکتا ہے۔
۲۔قوتوں کا توازن۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مخالف برقی رویں ایک دوسرے کو جذب کرتی ہیں ۔اس لحاظ سے ایک ایٹم کے اندر موجود الیکٹرون جو منفی برقی رورکھتے ہیں ،ان کا مرکز(nucleus) ،جو مثبت برقی رو کا حامل ہے ،ان کو ایک دوسرے کو جذب کر نا چاہئے ۔
اور دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ نیو کلیس کے گرد الیکٹرونوں کی گردش سے قوئہ دافعہ(مرکزسے دور ہونے کی طاقت)وجود میں آتی ہے ۔اس لئے یہ قوئہ دافعہ الیکٹرونوں کو ایٹم کے دائرہ سے دور کر نا چاہتی ہے تاکہ ایٹم کا تجزیہ ہو جائے اور ادھر سے قوئہ جاذبہ الیکٹرو نوں کو جذب کر کے ایٹم کو نابود کر نا چاہتی ہے ۔
یہاں پر قابل توجہ بات ہے کہ ایٹموں کے اندر کس دقیق حساب سے قوئہ جاذبہ ودافعہ منظم ہوئی ہیں کہ الیکٹرون نہ بھاگتے ہیں اور نہ جذب ہو تے ہیں ،بلکہ ہمیشہ ایک توازن کی حالت میںاپنی حرکت کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہے کہ اس توازن کوایک اندھی اور بہری طبیعت نے وجود میں لایا ہو؟
۳۔ ہر ایک اپنے معین راستہ پر گامزن ہے۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ بعض ایٹموں کے متعدد الیکٹرون ہوتے ہیں لیکن یہ سب الیکٹرون ایک مدار پر حرکت نہیں کرتے ،بلکہ یہ متعدّد مداروں پر حرکت کرتے ہیں ۔
یہ الیکٹروں لاکھوں سالوں سے ایک معین فاصلہ پر اپنے حدود میں بڑی تیزی کے ساتھ حرکت میں ہیں اور ان میں آپس میں کسی قسم کا ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا ہے۔
کیاان میں سے ہر ایک کو ان کے معین مداروں میں قرار دینا اور ایک حیرت انگیز نظام کے ساتھ ان کو حرکت میں لانا ایک آسان کام ہے؟
۴۔ایٹم کی عظیم طاقت۔
ایٹم کی طاقت کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف اس بات پر غور کر نا کافی ہے:
۱۹۴۵ء ء میں میلکسیکو کے ایک بے آب و علف صحرا میں ایک ایٹمی تجربہ انجام دیا گیا ۔ایک چھوٹے سے ایٹم بمب کو ایک فولادی ٹاور پر چھوڑ دیا گیا ۔اس نے پھٹنے کے بعد اس فولادی ٹاور کو پانی میں تبدیل کر دیا پھر اسے بھاپ میں تبدیل کر دیا اور ایک مہیب بجلی اور آواز بلند ہو ئی ۔جب سائنسدان اس جگہ پر پہنچے تو ٹاور کا کوئی نام ونشان نہیں پایا۔
اسی سال جاپان پردو چھوٹے ایٹم بم پھینکے گئے ۔ایک کو شہر ناکاسا کی پر اور دوسرے کر شہر ہیروشیما پر۔پہلے شہر میں ۷۰ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے اور اتنے ہی لوگ مجروح ہوئے اور دوسرے شہر میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے اوراتنے ہی لوگ مجروح بھی ہوئے،جس کے نتیجے میں جاپان نے مجبور ہو کر امریکہ کے سامنے بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دئے ۔
کیا ایٹم کے صرف ایک ذرّہ کے اسرار کا مطالعہ کر نا انسان کو خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟
لہذا وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس کائنات میں موجود ایٹموں کی تعداد کے برابر خدا کے وجود کے دلائل موجود ہیں۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
<ولواٴنما فی الارض من شجرة اٴقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعة اٴبحر مانفدت کلمات اللّٰہ (سورئہ لقمان/۲۷)
”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہار دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہو نے والے نہیں ہیں۔“
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیا آپ چیونٹیوں کی زندگی کے اسرار کے بارے میں کچھ اور
معلو مات رکھتے ہیں؟
۲۔کیا آپ ایک ایٹم کی بناوٹ کا خاکہ تختہ سیاہ پر کھینچ سکتے ہیں؟