میں حجاز اور وہابی علماء کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس وقت اپنے افکار اور نظریات کا نتیجہ دیکھ رہے ہو ، تمہاری فکروں کا نتیجہ سروں کو کاٹنا، جرائم انجام دینا، لوگوں کو زندہ جلانا اور نیست ونابود کرنا ہے ، لہذا تم مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوجائو اور ان غلط افکار کو ترک کردو ۔
اربعین بہت ہی قیمتی گوہر اور گرانقدر خزانہ ہے جو کہ اسلام اور مکتب اہل بیت (علیہم السلام) کی عظمت کا سبب ہے ، لہذا اس سے بہتر طریقہ سے استفادہ کیا جائے ۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خبر وں کے پڑھنے والوں کے ذہن پر خبر کا عنوان بہت تاثیر گزار ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ ایسے عناوین سے پرہیز کیا جائے جو اصل خبر کے بالعکس ہو اور ایسے عناوین سے استفادہ کیا جائے جو خبر کے متن اور روح کے مطابق ہو ۔
اس مسئلہ کا ایک غلط اثر ، حج کی قداست کا پائمال ہونا ہے جس کی وجہ سے حج کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے ، یہ ایسا نقصان ہے جس کی تلافی آسانی کے ساتھ ممکن نہیں ہے ۔
اس عظیم مصیبت پرآنکھوں میں خون اور دلوں میں آگ بھڑک اٹھی ہے / حرمین شریفین کے مینجمنٹ کے لئے ایک مدبر اور تجربہ کار گروہ معین ہونا چاہئے۔
ڈموکراسی اور لوگوں کی لوگوں پر حکومت کہاں ہے ؟ البتہ مذکورہ ممالک میں سے کسی ایک پر بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے ، لیکن ان کی یہ جدید اختراع اور ابداع اس بات کی علامت ہے کہ مغربی حکمراں اپنے شعار (نعرہ) میں کتنے جھوٹے ہیں ۔
کون سی عقل سلیم اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ جب مسجد الحرام میں لاکھوں کی تعداد میں حج کے لئے حاجی موجود ہوں تو مسجد الحرام کے اوپر کرین موجود ہو جو طوفان آنے کی وجہ سے گر جائے اور ٢٩٠ حاجی زخمی اور جاں بحق ہوجائیں ۔
اس سال کے حج کو حقیقت میں حج وحدت ہونا چاہئے اور جو کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث ہیں ، ان کاموں سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ تکفیری تمام مسلمانوں کا مقابلہ کررہے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا دفتر ایام حج میں ہر سال حجاج کی خدمت کرنے کیلئے مدینہ میں ایک دفتر قائم کرتا ہے اور حجاج کے سوالات و جوابات کیلئے علماء کے ایک گروہ کو اعزام بھی کرتا ہے ۔
استعماری سیاستمدار ان مذہبی اختلافات، قتل و غارت، دوسروں کے امور میں مداخلت اور دینی مقدسات کی توہین وغیرہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
ہم یہاں پر ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ شیعہ اور سنی دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی موجودگی میں ایک علمی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس میں اسلامی اتحاد کی راہ میں پائی جانے والی اہم ترین رکاوٹوں کی چھان بین کی جائے اور دوسری جانب سے اسلامی وحدت کو تقویت پہنچانے والے اہم ترین اقدامات عمل میں لائے جائیں.
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کی طرف سے زکات فطرہ کو معین کرکے ان کے دفاتر میں اعلان کیا گیا ۔
ہم دہشت گردی سے متعلق جرائم کی مذمت کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا سعودی حکومت ان اعمال سے متفق ہے ؟ اگر متفق نہیں ہے تو پھر ان جرائم پر روک کیوں نہیں لگاتی؟ شیعہ مراکز اور مساجد کے اطراف میں حفاظتی گارڈ کیوں متعین نہیں کرتی؟
پوری دنیا نے ان جرائم اور مظالم کی مذمت کی ، سعودی علماء اور سیاستمداروں نے بھی اس کی مذمت کی لیکن وہ بہت آسانی سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بے خبر اور سادہ لوح ہیں ۔
امریکہ، مغرب اور متحدان عرب کے سبز چراغ کی روشنی میں یمن پر حولناک جرائم کو زمانہ جاہلیت اور بربریت کی طرف پلٹنے پر بہترین دلیل اور گواہ سمجھا جاسکتا ہے ۔
یہ بات جان لو کہ اگر یہ حکم جاری ہوا توتمہیں اس کے برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور پوری دنیا کے شیعوں کے دلوں میں تمہاری طرف سے بہت زیادہ بغض و حسد بھر جائے گا ۔
کل تم کچه اور کہتے تھے اور تکفیریوں کے خلاف باتیں کرتے تھے ، لیکن آج کیا کہہ رہے ہو ، ہمارا کہنا یہ ہے کہ تکفیری وہابیت کی عمر تمام ہوچکی ہے ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تمام آپشن میز کے اوپر ہیں ،حقیقت میں وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی قانون کے تابع نہیں ہیں اور جنگلی وحشیوں کی طرح جہاں بھی ہمیں نقصان ہوگا وہاں پر حملہ کریں گے ۔
قدرت کا جنون رکھنے والے آپس میں متحد ہوگئے ہیں ، ذرہ برابر بھی ان کے پاس دین ، عربی غیرت اور انسانی احساس ہوتا تو ھرگز ایسا نہ کرتے ۔
داعش ، النصرة اور القاعدہ جیسی تکفیری گروہوں کے ظاہر ہونے کے بعد اور انہوں نے جو مظالم ڈھائے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مکتب تکفیر ، عقل، نص، صریح قرآن کریم اور اسلام کے برخلاف ہے ۔
سب سے پہلے میں جناب عالی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے الازہر یونیورسٹی میں ''ٹروریسٹ اور افراطی گری سے مقابلہ ''کے عنوان پر کانفرنس منعقد کرکے اس میں اسلامی مذاہب کے نمایندوں کو دعوت دی اور اپنا شجاعانہ اور قیمتی وقت اس کانفرنس پر صرف کیا ، ایسی کانفرنس جس میں ''ایمان'' ، ''کفر'' اور ''جہاد'' کے مفاہیم کی صحیح تفسیر پیش کی گئی اور اسی طرح امت اسلامی کے اتحاد کو مضبوط بنانے پر تاکید کی گئی ۔
اس وقت دنیا میں عجیب و غریب بدعت شروع ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو ملک بھی دوسرے ملک کے حالات کو اپنے مفاد میں نہیں دیکھتے تو وہ بغیر کسی جواز کے اس پر حملہ کردیتا ہے اور جنگ شروع ہوجاتی ہے ، عجیب ناامنی پیدا ہوگئی ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) کی عنایات اور برکتوں کے سایہ میں نیا سال ، اسلامی جمہوریہ ایران اور تمام مسلمانوں کیلئے بابرکت اور پُر رونق سال قرار پائے ، اس سال حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت اور نیا سال ایک ساتھ واقع ہورہے ہیں ۔
ہم اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مغربی دنیا کو متنبہ کرتے ہیں که اس ظالم ، ستمکار اور وحشی گروہ کی ھر قسم کی مالی امداد بند کریں کیوں کہ اس کا بدترین نتیجہ سبھی کے دامن گیر ہوگا ۔
نہیں معلوم ان خود کش حملہ کرنے والے، مردہ ضمیر اور درندہ صفت افراد کو کون سی تعلیم دی جاتی ہے جس سے وہ اپنے آپ کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اللہ کے گھر میں بے گناہ عورتوں اور بچوں کو خاک و خوں میں غلطاں کریں؟
حقیقت یہ ہے کہ مغربی سیاستمداروں کے پاس سیاسی عقل نہیں ہے ، ورنہ ایک چھوٹے سے گروہ کے جرم کی وجہ سے اپنے آپ کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے نہ ٹکراتے اور غور و فکر کرنے کے بجائے یہ سب نہ کرتے ۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی توہین کرنے کے معنی تمام مسلمانوں سے اعلان جنگ ہے ، تمہیں داعش نے نقصان پہنچایا ہے ،کیا تمہارا مسلمانوں سے انتقام لینا عاقلانہ کام ہے ، اس متعلق تمہیں غور وفکر کرنا چاہئے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ داعش وہ بدترین مخلوق ہے جنہیں کسی بھی چیز کی کوئی فکر نہیں اور تاریخ انسانیت میں کسی نے بھی اس طرح کی جنایتیں انجام نہیں دی ہیں اگر چه ان کو وجود میں لانے والے خود ان کے وجود سے پریشان ہیں ۔