تقیّہ کے لغوی اور اصطلا حی معنیٰ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
اسلام کی سپر تقیہ
حرف آغاز تقیّہ کا حُکم تکلیفی

تقیّہ کے لغوی اور اصطلا حی معنیٰ


تقیّہ لغت میں ” اتقی متیقی “ کا مصدر ہے ۔ اسم مصدر نہیں جیسا کہ شیخ انصاری نے فرمایا ہے ۔ بلکہ اسم مصدر تقوی ہے ...چنانچہ تحقیق فیروزآبادی ” قاموس “ میں فرماتے ہیں ”انقیت الشی وتقیّت “یعنی حضرت “ ” میں فلاں چیز سے بچا “ گویا کسی بھی چیز سے بچنے کو تقیّہ کہا جاتا ہے ۔بنا بر این تقیّہ کے ان معنی کا دائر ہ جو فقہ، اصول اور علم کلام میں بیان ہوئے ہیں ۔لغوی معنی کی بہ نسبت تنگ ہے ۔اس سلسلہ میں علماء کرام کی جو عبارتیں اور مضامین ہم تک پہونچے ہیں وہ مختلف ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ علماء کے درمیان تقیّہ کی حقیقت ومفاد کے بارے میں اختلاف ہے ،بلکہ اس کی حقیقت پر سبھی متّفق ہیں۔ بطور نمو نہ عبارتیں نقل کرتے ہیں ۔
۱۔شیخ مفید علیہ الّرحمتہ نے اپنی کتاب ”تیصحح الا عتقاد “ میں تقیّہ کی تعریف یو ں بیان کی ہے ۔حق اور عقید ہ حقہ کو مخالفین سے پو شیدہ رکھنا اور جن چیزوں کے اظہار سے دینی اور دنیا وی نقصان کا اندیشہ ہو ان کے ظاہر کرنے سے پر ہیز کرنا ۔
۲۔ شہید امری اپنی کتاب ” قواحد “ فرماتے ہیں ،لوگو ں کے شر سے بچنے کے لئے معرف و منکر میں ان کے شانہ بشانہ چلنے کو تقیّہ کہتے ہیں۔
۳۔ علامہ شخ انصاری ۺاپنے رسالہ ” التقیّہ “ میں رقمطر از ہیں ” تقیّہ سے مراد اپنے کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے قول و فعل میں مخالفت حق غیر کی موافقت کرنا ۔
۴۔علامہ شہرستانی ”قدس سرہ“ شیخ مفید کی کتاب ”ادائل المقالاتِ“کے حاشیہ پر لکھتے ہیں ۔اگر کسی امر دینی میں خوف ضرر ہو تو اسے پو شیدہ رکھنا تقیّہ کہلاتا ہے(۱) ۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ مذکورہ تعریفوں میں سے بعض کا دائر وسع ہے اور بعض تنگ ہے ۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقیّہ کے معنی کی وضاحت کے پیش نظر کسی نے بھی اس کی جا مع افراد اور مانع اعتبار سے تعریف کرنے کی کو شش نہیں کی ہے اسی لئے کسی نے دوسرے کی تعریف پر اعتراض بھی نہیں کیا ہے ۔
ہم جس چیز کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ .تقیّہ ہر اس جماعت کے لئے ایک سپر ہے جس پر اکثر یت اس اقایئت کو اظہار عقیدہ اور اس کے مطابق عمل کرنے کی اجازت نہ دیتی ہو تو وہ اقلیت اپنے مال نفوس کو متعصّب مخالفوں کی دست برداور غارت گری سے محفوظ رکھنے کے لئے فطرت کے عین مطابق کبھی تو تقیّہ کا سہارا لئے ہیں ۔ کہ جب حفظ نفوس واموال اظہار حق کی بہ نسبت اہم ہوتا ہے ۔اور جب وہ سمجھتے ہیں کہ اظہار حق زیادہ ضروری ہے تو تقیّہ کو ترک کرتے ہیں ہر طرح کا نقصان بر داشت کرتے ہیں اور آخر کا ر موت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔چنانچہ جب انسان ایسے دورا ہے پر کھڑ ا ہو جس کے ایک طرف اہم اور دوسری طرف مہم ہو تو عقل بھی اہم اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے اور اسی کا نام تقیّہ ہے جو حکم عقل کے عین مطابق ہو ۔
لہذا حقیقت یہ ہے کہ نہ فقط شیعہ تقیّہ کرتے ہیں ۔اور نہ ہی تقیّہ شیعوں سے مخصو ص ہے اگر چہ مشہور یہی کر دیا گیا ہے ، بلکہ دنیا میںہر وہ قوم تقیّہ کرتی ہے جو شیعو ں جیسی مصیبتوں میں مبتلا ہو ، شیعوں کے ساتھ تقیّہ اس لئے مشہور کردیا گیا ہے اکثرزمانوں میں تقریباً ہر جگہ ظالم مخالفوں کی سلطنت میں رہے ہیں چنانچہ کوئی بھی اقلیّت جب ایسی موقعیت میں ہو تو تقیّہ اس کی تاریخ میں ثبت ہو جاتا ہے ۔
آیات اور بہت سی احادیث شاہد ہیں کہ ایسے ہی حالات میں مئو من آل فرعون اور اصحاب کہف نے تقیّہ کو حفظ دین کا وسیلہ بنایا ۔بلکہ بعض وجوہ کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ بت پرستوں کی جھتی کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مکا لمہ میں حضرت یوسف (علیه السلام)نے تقیّہ سے کام لیا ہے ۔

حرف آغاز تقیّہ کا حُکم تکلیفی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma