سوره اعراف

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ترجمه قرآن کریم

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱۔ المص

۲۔ یہ وہ کتاب ہے جو تم پر نازل ہوئی،لہذا اس کی (تبلیغ کی) وجہ سے تمھارے سینے میں کوئی تکلیف نہیں ہونا چاہیے، غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے (تمام لوگوں کو عقائد بد اور اعمالِ ناشائستہ کے بُرے انجام سے) ڈراؤ، اور یہ ایک یاد دہانی ہے مومنوں کے لئے ۔

۳۔ (اس بناء پر) وہ چیز جو تمھارے پروردگار کی جانب سے تمہاری طرف نازل ہوئی اس کی پیروی کرو، اور اس کے سوا دوسرے سرپرستوں اور خداؤں کی پیروی مت کرو، لیکن کم ایسا ہوتا ہے کہ تم پر یاد دہانی اثر کرے (اور تم ہوش میں آؤ) ۔

۴۔ اور کتنے ہی شہر اور آبادیاں ایسی ہیں جنھیں ہم نے (ان کے گناہوں کی وجہ سے) تباہ کردیا، اور ہمارے عذاب نے جبکہ وہ رات کو سوئے ہوئے تھے یا دوپہر کو استراحت کی حالت میں تھے انھیں جالیا ۔

۵۔ جس وقت ان پر ہمار اعذاب آیا تو وہ اس کے سوا کچھ نہ کہہ سکے کہ ہم ظالم تھے (لیکن اس اعترافِ گناہ میں دیر ہوچکی تھی ،لہذااس نے انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ۔

۶۔ یقینا ہم ان لوگوں سے سوال کریں گے جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے تھے نیز ان پیغمبروں سے بھی سوال کریں گے ۔

۷۔ اور یقینا ہم (سب کے اعمال کو حرف بہ حرف) ان کے سامنے اپنے (وسیع) علم کی رُو سے بیان کریں گے، اور ہم( اصولی طور پر) غائب نہ تھے( بلکہ ہم ہر جگہ حاضر و ناظر تھے) ۔

۸۔اور اس روز( اعمال کا) وزن کرنابرحق ہے، (اور ان کی قیمت معین کرنا) برحق ہے) ، وہ لوگ جن کی میزان (عمل) بھاری ہوگی وہ فلاح یافتہ ہیں ۔

۹۔ اور وہ لوگ جن کی میزان (عمل) سبک ہے وہ ہیں جنھوں نے اپنے اُس ظلم و ستم کی وجہ سے جو وہ ہماری آیتوں پر روا رکھتے تھے، اپنے سرمایہٴ وجود سے ہاتھ دھولیا ہے ۔

۱۰۔ ہم نے زمین پر تسلّط، مالکیّت اور حکومت تمھارے لئے قراردی ہے، اور زندگی کے لئے طرح طرح کے وسائل تمھارے لئے فراہم کیے ہیں،لیکن تم بہت کم شُکر کرتے ہو (اور خدا کی ان تمام نعمتوں کو بر محل صرف نہیں کرتے) ۔

۱۱۔ہم نے تمھیں پیدا کیا، پھر ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی، اس کے بعد ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو، انھوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا ۔

۱۲۔(خدانے اس سے) فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدے سے روکا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا؟ اُس نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تونے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے خاک سے ۔

۱۳۔اللہ نے فرمایا: اس (مقام و مرتبہ سے اتراجا! تجھے اس مقام و مرتبہ) میں یہ حق نہیں پہنچتا کہ تو تکبّر کرے، تو یہاں سے نکل جا، تو پست و حقیر افراد میں سے ہے ۔

۱۴۔اس (شیطان) نے کہا مجھے روزِ محشر تک کے لئے مہلت دے (اور زندہ رہنے دے) ۔

۱۵۔(اللہ نے) فرمایا: تو مہلت یافتہ افراد میں سے ہے ۔

۱۶۔اس نے کہا: اب جبکہ تونے مجھے گمراہ کیا ہے، میں تیرے سیدھے راستے پر ان لوگوں کی تاک میں بیٹھ جاؤں گا ۔

۱۷۔اس کے بعد ان کے آگے سے ، پیچھے سے، داہنی طرف سے ، بائیں طرف سے ان کی طرف آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شُکر گزار نہ پائے گا ۔

۱۸۔(اللہ نے) فرمایا: اس (مقام) سے ذلّت و خواری ے ساتھ باہر نکل جا، جو شخص بھی ان میں سے تیری پیروی کرے گا، میں ان سے اور تجھ سے جہنم کو بھردُوں گا ۔

۱۹۔ اور اے آدم ! تم ، اور تمہاری زوجہ بہشت میں مقیم رہو، اور جہاں سے چاہو کھاؤ، لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ستم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے ۔

۲۰۔ اس کے بعد شیطان نے انھیں پھسلایا تاکہ وہ چیز جو اُن کے اندام میں پوشیدہ ہے ظاہر ہوجائے،اور اُس نے کہا کہ تمھارے پروردگار نے تم کو اس درخت سے نہیں روکا اس لئے کہ (اگر اس سے کھالو گے تو)یاتو فرشتہ بن جاؤ گے یا ہمیشہ کے لئے (بہشت میں)رہو گے ۔

۲۱۔ اور اس نے ان کے سامنے یہ قسم کھائی کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں ۔

۲۲۔اور اس طرح سے ان کو دھوکا دے کر (ان کے مقام و درجہ سے) نیچے گرادیا، اور جس وقت انھوں نے درخت سے چکھا، ان کا اندام (شرم گاہ) ان کے لئے نمایاں ہو گیا،اور انھوں نے درخت کے پتوں کو اپنے اوپر رکھنا شروع کردیا،پھر ان کے پروردگار نے ان کو نِدا کی کہ کیا میں نے تمھیں اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا ، اور یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟!

۲۳۔ان دونوں نے کہا: پروردگارا! ہم نے اپنی جانوں پر ستم کیا، اکر تو ہمیں نہیں بخشے گااور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سےہوجائیں گے ۔

۲۴۔(خدانے)فرمایا: (اپنے مقام سے) نیچے اتر جاؤ اس حال میں کہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگے ۔(شیطان تم دونوں کا دشمن اور تم دونوں اس کے دشمن) اور تمھارے لئے زمین میں ٹھہرنے کی جگہ ہے،اور ایک مدت تک کے لئے وسائل زندگی مہیا ہیں ۔

۲۵۔(خدانے) فرمایا: تم اسی (زمین )میں جیو گے، اسی میں مروگے، اور اسی سے (بروز محشر) باہر نکلو گے ۔

۲۶۔ اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمھارے لئے لباس اتارا تا کہ تمھارے اندام کو ڈھانپ لے ،اور تمھارے لئے زینت بنے، اور تقوے کا لباس اس سے بہتر ہے ۔ یہ (سب) خدا کی آیتوں (نشانیوں) میں سے ہے، شاید تم (۱) اس کی نعمتوں کو یاد کرنے والے بنو ۔

۱۔ لفظ شاید پر ہمارا نوٹ پہلے بھی گزرچکا ہے جو ”لعل“ کا ترجمہ ہے، یہ لفظ جب اللہ اپنے لئے استعمال کرتا ہے تو اس کے معنی ”تاکہ “کے ہوتے ہیں، اور ”شاید“ وہ کہتا ہے جس کو نتیجہ کا نہ علم ہو(مترجم) ۔

۲۷۔اے اولاد آدم ! شیطان تمھیں دھوکا نہ دے، جس طرح تمھارے ماں باپ کو دھوکا دے کر بہشت سے باہر نکال دیا؛ اور ان کے لباس کو ان کے جسموں سے اتار دیا تاکہ ان کی شرمگاہیں انھیں دکھادے، کیونکہ وہ (شیطان)اور اس کے کارندےتمھیں دیکھتے ہیں اور تم انھیں نہیں دیکھتے، (لیکن یہ جان لو) ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا ولی قرار دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔

۲۸۔ اور جس وقت وہ کوئی کار بد کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپوں کو یہی کرتے دیکھا ہے اور خدا نے ہمیں یہی حکم دیا ہے (اے ہمارے رسول!) ان سے کہہ دو: کہ خدا (ہرگز) کبھی کسی کو بُرے کام کا حکم نہیں دیتا، کیا تم خدا کی طرف اس بات کی نسبت دیتے ہو جو نہیں جانتے؟!

۲۹۔ (اے میرے رسول!)کہہ دو: کہ میرے پرورگار نے عدالت کا حکم دیا ہے، اور ہر مسجد میں (اور وقتِ عبادت)اپنی توجہ اس کی طرف رکھو، اسے پکارو اور اپنے دین کو اس کے لئے خالص کرو ،(اور یہ جان لوکہ )جس طرح اس نے تمہیں آغاز میں پیدا کیا ہے (اسی طرح) تم حشر کے روز اس کی طرف پلٹو گے ۔

۳۰۔ (خدا نے )کچھ لو گو ں کی ہدایت کی اور کچھ لوگ (جن میں لیاقت نہیں تھی) ان کی گمراہی مسلم الثبوت ہے،(یہ وہ لوگ ہیں کہ) انھوں نے بجائے خدا کے شیطانوں کو اپنا ولی وسرپرست بنایا ہے،اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔

۳۱۔ اے اولاد آدم! مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اپنے ساتھ لے لو، کھاؤ،پیو اور اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

۳۲۔ (اے رسول)کہہ دو:جن زینتوں کو جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے انھیں کس نے حرام کیا ہے،اور پاک روزیوں کو؟ کہو کہ یہ زندگی دنیا میں ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے (اگر چہ دوسرے لوگ بھی ان کے شریک ہیں لیکن) قیامت کے روز خالص (صاحبان ایمان کے لئے)ہوگی،ہم  ایسی آیتوں کی تفصیل ہم ان لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں جو آگاہ ہیں ۔

۳۳۔ کہہ دو کہ میرے پروردگار نے صرف بُرے کاموں کو، چاہے وہ آشکارا ہوں یا پنہاں، حرام کیا ہے، اور (اسی طرح) گناہو ناحق ستم کو (حرام کیا ہے)، اور یہ کہ اس چیزکو خدا کا شریک ٹھہراؤ جس کی کوئی دلیل خدانے نازل نہیں کی، اور خدا کے متعلق وہ بات کہو جو نہیں جانتے (ان تمام باتوں کو اس نے حرام کیا ہے) ۔

۳۴۔ ہر قوم و ملت کے لئے ایک (معیّن) مدت اور زمانہ ہے، جب بھی ان کی مدت ختم ہو جائے گی تو وہ لوگ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے نہ آگے بڑھ سکیں گے ۔

۳۵۔ اے آدم کی اولاد! اگر تمھارے پاس تم میں سے رسول آئیں اور وہ تمہارے لئےمیری آیتیں پڑھیں (تو ان کی پیروی کرنا) کیونکہ جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور عمل صالح بجالائیں گے، (اور اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کریں گے) تو ان کے لئے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

۳۶۔ اور وہ لوگ جو ہمارری آیتوں کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں تکبر کریں گے وہ دوزخی ہیں، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

 ۳۷۔ ان لوگوں سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو خدا پر بہتان باندھیں، یا اس کی آیتوں کی تکذیب کریں! یہ لوگ جو کچھ ان کے مقدر میں ہے (اس جہاں کی نعمتوں میں سے) اس سے اپنا نصیبہ پائیں گے، یہاں تک کہ ہمارے فرستادہ (قبض ارواح کے فرشتے) انھیں لینے آ جائیں گے، اور جانوں کو قبض کریں گے، اور ان سے پوچھیں گے: کہاں ہیں تمھارے وہ معبود جنہیں تم خدا کے علاوہ پکارتے تھے؟ (وہ آج تمہاری مدد کو کیوں نہیں آتے؟) وہ کہیں گے کہ وہ (سب آج) گم ہوگئے (اور ہم سے دور ہوگئے ہیں)، اور وہ اپنے ہی خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔

۳۸۔ (خداوند کریم ان سے) کہے گا: جنّوں اور انسانوں میں سے جو تم سے پہلے تھے (اور بد اعمالیوں میں تم جیسے تھے) ان کے ہمراہ تم بھی آگ میں داخل ہوجاؤ، جب بھی ایک گروہ (آگ میں) داخل ہوگا تو وہ دوسرے گروہ پر لعنت بھیجے گا؛ تاکہ سب ذلت کے ساتھ اس میں باقی رہیں ۔ (اس ہنگام) پیروی کرنے والا گروہ اپنے پیشواؤں کے بارے  میں کہے گا: خدایا! یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا آگ کے عذاب کو ان کے لئے دوگنا قرار دے، (ایک عذاب خود ان کی گمراہی کے بدلہ میں دوسرا عذاب ہم کو گمراہ کرنے کے بدلہ میں خدا ) کہے گا: کہ تم میں سے ہر ایک کے لئے دوگنا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے (کیونکہ پیروی کرنے والے اگر پیشواؤں کے چاروں طرف اکھٹا نہ ہوتے تو وہ دوسروں کو گمراہ نہ کر پاتے) ۔

۳۹۔ پیشوا اپنے پیروؤں سے کہیں گے: تمھیں ہم پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے،لہذا عذاب (الٰہی) کا مزہ اس (عمل) کے بدلے میں چکھو جو تم نے انجام دیا ہے ۔

۴۰۔ وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور ان کے مقابلے میں تکبر کیا،ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے؛ (اور وہ کبھی) بہشت میں داخل نہ ہوں گے،مگر یہ کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزرجائے (یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا) مجرموں کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔

۴۱۔ ان کے لئے دوزخ (کی آگ) کے بستر ہوں گے اور ان کے اوپر اوڑھنا بھی (اسی کا) ہوگا، اور ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔

۴۲۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح انجام دیا ہے،البتہ ہم کسی پر ہم اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتے ، وہ اہل بہشت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

۴۳۔ اور ہم ان کے دلوں میں جو کینہ اور حسد ہے اسے باہر نکال دیں گے (تاکہ صلح وصفائی کے ساتھ باہم زندگی بسر کریں) اور ان کے (محلوں اور درختوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، (اس وقت) وہ کہیں گے: ساری تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جس نے ان (نعمتوں) کی طرف ہماری ہدایت کی، اور اگر الله ہماری ہدایت نہ کرتا تو ہمیں (ان کی) راہ نہ مِلتی، بے شک ہمارے رب کے سارے رسول حق کے ساتھ آئے اور (اس وقت) انھیں یہ ندا سنائی دے گی کہ یہ ہے وہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، ان اعمال کے بدلے جو تم انجام دیئے ہیں ۔

۴۴۔ اور بہشت والے دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے ہم نے اس وعدہ کو حق پایا جو ہمارے الله نے ہم سے کیا تھا، کیا تم نےبھی اس وعدہ کوحق پایاجو الله نے تم سے کیا تھا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں! اسی اثناء میں ایک نِدا دینے والا ان کے درمیان یہ ندا دے گا کہ  ظالموں پرخدا کی لعنت ۔

۴۵۔ (ایسے ظالم) جو لوگوں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں،اور ان کے دلوں میں شبہات ڈال کر) اس (راستے) کو ٹیڑھا دکھلاتے ہیں اور وہ آخرت کے منکر ہوتےہیں ۔

۴۶۔ اور ان دونوں (جنت والوں اور دوزخ والوں) کے درمیان ایک پردہ ہوگا اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے جو ان دونوں کو ان کی علامتوں سے پہچانیں گے، وہ بہشت والوں کو آواز دیں کہ تم پر سلام ہو لیکن وہ بہشت کے اندر داخل نہ ہوسکیں گے،جبکہ اس کے امیدوار ہوں گے ۔

۴۷۔ اور جس وقت ان کی نظر دوزخیوں پر پڑے گی تو کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ستمگاروں کے ساتھ نہ رکھنا ۔

۴۸۔ اور اعراف والے (مرد) کچھ مردوں کو (دوزخیوں میں سے) جنھیں وہ ان کی علامتوں سے پہچانتے ہوںگے، پکاریں گے اورکہیں گے: کہ (دیکھا) تم نے جن چیزوں کو تم نے اکھٹا کیا تھا (یعنی مال ودولت اور زوجہ واولاد) اور جو تم تکبّر کیا کرتے تھے (آج یہ سب کچھ تمھارے کچھ کام نہ آیا ۔

۴۹۔ کیا یہ (وہ پسماندہ افراد جو اعراف میں ہوں گے) وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسم کھایا کرتے تھے کہ خدا کی رحمت ہرگز ان کے شاملِ حال نہیں ہوگی (لیکن ان کے ایمان اور ان کے بعض اعمالِ خیر کی وجہ سے خدا انھیں اپنی رحمت کے دامن میں پناہ دے گا، اب ان سے کہا جائے گا) بہشت کے اندر داخل ہوجاؤ، نہ تو تم کو کوئی خوف ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے ۔

۵۰۔ دوزخ والے جنت والوں سے پکارکر کہیں گے: کہ تھوڑا پانی، یا خدا نے تمھیں جو روزی بخشی ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو، تو وہ (جنّت والے اس کے جواب میں)  کہیں گے :کہ خدا نے اس کو کافروں پر حرام قرار دیا ہے ۔

۵۱۔ (ایسے کافر) جو خدا کے دین اور قانون کو کھیل تماشا سمجھتے تھے ،اور دنیاوی زندگی نے انھیں دھوکا دیا تھا،لہذا آج کے روز ہم انھیں اسی طرح بھلادیں گے جس طرح انھوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا، اور ہماری نشانیوں کا انکار کرتے تھے ۔

۵۲۔ ہم ان کے لئے ایک ایسی (پر اسرار و رموز) کتاب لائے جس کی ہم نے علم کے ساتھ شرح کی ،(ایک ایسی کتاب) جو ان لوگوں کے لئے باعث ہدایت ورحمت ہے، جو ایمان لاتے ہیں ۔

۵۳۔ کیا انھیں اس بات کا انتظار ہے کہ وہ آخر میں الله کی نشانیوں کی (اور الہی دھمکیوں)کے ظاہر ہونے کو ؟!دیکھیں گے،(۱)(لیکن) جب یہ امر ظاہر ہوگا تو اس وقت (پانی سر سے گذر چکا ہوگا، اور شیمانی کوئی فائدہ نہ دے گی)۔ وہ لوگ جو اس سے قبل اسے بھول چکے ہوں گے کہیں گے:ہمارے رب کے فرستادہ رسول برحق آئے تھے، کیا آج کے روز ہمارے لئے کچھ ایسے شفاعت کرنے والے ہیں جو ہماری شفاعت کریں گے؟ یا (یا اس بات کا امکان ہے کہ) ہم دوبارہ پلٹادیئے جائیں؟ اور وہ اعمال بجالائیں جو ہم بجا نہ لائے تھے (لیکن) انھوں نے اپنے وجود کا سرمایہ اپنے ہاتھ سے کھودیا ہے،اور انھوں نے جو جھوٹے معبود  بنائے تھے وہ سب گم ہوگئے ہیں، (اب نہ تو ان کے لئے پلٹنے کی کوئی راہ ہے اور نہ کوئی ان کی شفاعت کرنے والا موجود ہے)

۵۴۔ تمھارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں (چھ مرحلوں)میں پیدا کیا، اس کے بعد وہ عرش(قدرت) پر متمکن ہوگیا(=وہ جہان کے انتظام کی طرف متوجہ ہوا)، وہ رات (کے تاریک پردہ) سے دن کو ڈھانپ لیتا ہے،اور رات دن کے پیچھے پیچھے رواں دواں ہے، اور اس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا اس حال میں کہ یہ سب اس کے تابع فرمان ہیں، آگاہ ہوجاؤکہ (جہان کا) پیدا کرنا اور اس کا انتظام کرنا الله کے لئے اور اسی کے حکم سے ہے، برکت والا (اور لازوال) ہے، وہ خدا جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔

۵۵۔ اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور تنہائی میں پکارو، اور (زیادتی سے ہ دستبردار ہوجاؤکیونکہ) وہ زیادتی کرنے والوں کو دوستی نہیں رکھتا ۔

۵۶۔ اور زمین میں فساد نہ کرو؛ جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے، اور خدا کو خوف وامید کی حالت میں پکارو (خوف ذمہ داریوں کا؛ امید اس کی رحمت کی) کیونکہ الله کی رحمت نیکوکاروں سے نزدیک ہے ۔

۵۷۔ وہ خدا وہ ہے جو ہَواؤں کواپنی رحمت (کی بارش) کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادلوں کواپنے دوش پر اٹھالیتی ہیں، ہم انھیں مردہ زمین کی طرف ہنکادیتے ہیں، پھر ان سے پانی برساتے ہیں، پھر اس کے ذریعے ہر طرح کے پھل اُگاتے ہیں، (تم جان لوکہ) اسی طرح ہم مُردوں کوبھی (قیامت کے روز زندہ کر کے زمین سے) نکالیں گے، (یہ مثال ہم نے اس لئے دی ہے) تاکہ تم (آخرت کو) یاد کرو ۔

۵۸۔ پاکیزہ (اُپجئو)زمین کی زراعت الله کے حکم سے (خوب) اُگتی ہے، اور خبیث (اوربنجر) زمین میں سوائے معمولی گھاس پھونس کے اور کچھ نہیں اُگتا، ہم اسی طرح سے آیتوں کوادل بدل کے ان کے لئے بیان کرتے ہیں جو شکر ادا کرتے ہیں ۔

۵۹۔ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا انھوں نے اس (قوم) سے کہا کہ اے میری قوم! صرف خدائے یگانہ کی پرستش کرو، کہ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے، (اور اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کروگے تو) میں تمھارے اوپر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔

۶۰۔ (لیکن) ان کی قوم کے کچھ بڑے لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتے ہیں ۔

۶۱۔ (نوح(علیه السلام) نے) کہا اے میری قوم مجھ میں کوئی گمراہی نہیں ہے، لیکن میں سارے جہانوں کے رب کا، فرستادہ ہوں ۔

۶۲۔ میں اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور تمھیں نصیحت کرتا ہوں اور الله کی جانب سے میں کچھ  چیزوں کو جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔

۶۳۔ کیا تم کویہ تعجب ہے کہ تمھارے رب کی جانب سے یاددہانی کے لئے تمھارے پاس آنے والا فرمان ایک ایسے شخص پر نازل ہوا ہے جو تم میں سے ہے تاکہ وہ تمھیں ڈارئے اور تم ڈرو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔

۶۴۔ پس ان لوگوں نے اس (نوح(علیه السلام)) کی تکذیب کی، پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی، اور ان لوگوں کو غرق کردیا جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، بیشک وہ لوگ ایک اندھی (اور کور باطن) قوم تھے ۔

۶۵۔اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان ک بھائی ہود کو بھیجا، انھوں نے کہا کہ اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو؛اس کے علاوہ تمھارا کوئی خدا نہیں، تم کیوں نہیں ڈرتے ہو ۔

۶۶۔ ان کی قوم کے ایک بڑے لوگوں نے جو کافر تھے یہ کہا: کہ (اے ہود) ہم تم کو نادانی میں دیکھتے ہیں، اور ہم تمہیں یقینا جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں ۔

۶۷۔ انھوں نے کہا کہ اے میری قوم! مجھ میں کسی قسم کی کوئی نادانی نہیں ہے، لیکن میں تمام جہانوں کے پروردگار کا فرستادہ ہوں ۔

۶۸۔ میں اپنے رب کے پیغاموں کو تم تک پہنچاتاہوں، اور میں تمھارے لئے ایک امانت دار نصیحت کرنے والا ہوں ۔

۶۹۔ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے ایک ایسے مرد کے ذریعہ یاد دہانی آئے جو تم میں سے ہے،تاکہ وہ تم کو ڈرائے، اور تم یاد کرو اس وقت کا جب کہ تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایااور تم کو ازروئے خلقت کشادگی دی،(بدنی حیثیت سے قوی بنایا) پس اللہ کی نعمتوں کو دھیان میں لاؤ تاکہ تم فلاح پاجاؤ( کامیاب ہوجاؤ) ۔

۷۰۔انھوں نے کہا کہ کیا تم اس واسطہ آئے ہو کہ ہم صرف ایک خدا کی پرستش کریں اور ان (کئی خداؤں ) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے اباوٴاجداد عبادت کرتے چلے آرہے ہیں؟ (ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا)لہٰذا تم جس(عذاب)سے ہم کو ڈرارہے ہو اس کو لے آؤ اگر تم واقعاً سچوں میں سے ہو ۔

۷۱۔(حضرت ہود (علیه السلام) نے) کہا کہ پلیدگی اور غضب تمھارے رب کی طرف سے تم کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے، کیا تم مجھ سے کچھ ناموں کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جو تم نے اور تمھارے اباوٴاجداد نے (بطور معبود کے) گھڑ رکھے ہیں، اللہ نے ان کی حقانیت کی کوئی دلیل بھی نہیں اتاری ہے،اچھا تو انتظار کرو اور میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوتا ہو ۔

۷۲۔پس ہم نے ان (ہود(علیه السلام)) کو اور جو ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت سے نجات دی، اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکزیب کی تھی اور وہ ایمان نہیں لائے تھے انھیں جڑ سے نابود کردیا ۔

۷۳۔ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، انھوں نے کہا اے میری قوم! خدا کی پرستش کرو، اس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں ہے، ایک روشن دلیل تمھارے لئے تمھارے پروردگار کی طرف سے آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ تمھارے لئے معجزہ ہے،اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ خدا کی زمین میں (جنگلی گھاس پھوس) چرے، اور (دیکھو) اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمھیں دردناک عذاب آلے گا ۔

۷۴۔اور اس چیز کو اپنے دھیان میں لاؤ کہ خدا نے تمھیں قوم عاد کا جانشین بنایا،اور (ان کی ) زمین میں تمھیں بسایا،تاکہ اس کے ہموارخطہ میں تم اپنے لئے قصر بناؤ، اور پہاڑوں میں (بھی) اپنے واسطے گھر تراشولہٰذا اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو، اور زمین میں فساد نہ کرو ۔

۷۵۔ لیکن ان (صالح (علیه السلام) ) کی قوم کے متکبر سرداروں نے ان مستضعف (غریب لوگوں) سے پوچھا: کیا (واقعی) تم کو یہ یقین ہے کہ صالح اپنے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں، انھوں نے جواب دیا کہ ہم اس چیز پر (اچھی طرح سے) ایمان لائے ہیں جس کا ان کو (اللہ کی جانب سے) حکم دیا گیا ہے ۔

۷۶۔متکبر افراد نے کہا : (مگر) ہم تو اس چیز کے کافر ہیں جس پر تم لوگ ایمان لائے ہو ۔

۷۷۔ اس کے بعد انھوں نے کے ہاتھ پا ؤں کاٹ دے، اور اپنے پروردگار کے حکم سے روگردانی کی۔ اور کہا کہ اے صالح! اگر تم (واقعا) خدا کے فرستادہ ہو تو جس (عذاب ) سے ڈراتے ہو اس کو لے آؤ۔

۷۸۔آخر کار انھیں زلزلہ نے آلیا، اور وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں جسم بے جان ہوکر رہ گئے ۔

۷۹۔پس (صالح نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا :اے میری قوم! میں نے اپنے رب کا پیغام تمھیں پہنچادیااور جو خیرخواہی کا حق تھا وہ ادا کردیا، مگر میں کیا کروں کہ تم اپنے خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔

۸۰۔اور (یاد کر و کہ) جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بری بات کرتے ہو جس کو  تم سے پہلے تمام جہانوں میں سے کسی نے نہیں کیا ۔

۸۱۔کیا تم تسکین شہوت کے لئے مردوں کی طرف جاتے ہو، نہ کہ عورتوں کی طرف ؟ تم تجاوز کرنے والے لوگ ہو ۔

۸۲۔لیکن ان کی قوم کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ انھوں نے کہا کہ ان(لوط اور ان کے ماننے والوں ) کو اپنی آبادی سے باہر نکال دو، یہ لوگ اپنے کو پاک ظاہر کرنے والے ہیں ۔(اور ہمارے ہم صدا نہیں ہیں)

۸۳۔ (جب بات یہاں تک پہنچی تو) ہم نے ان(لوط) کو اور ان کے خاندان کو نجات دی،سوائے ان کی زوجہ کہ کہ وہ باقی ماندہ (ہلاک ہونے والے ) افراد میں سے تھی ۔

۸۴۔ (پھر اس کے بعد) ہم نے ان پر خوب بارش کی (پتھروں کی بارش تاکہ وہ انھیں کو نیست ونابود کردے) اب دیکھو مجرموں کا انجام کیا ہوا ۔

۸۵۔اور (ہم نے بھیجا) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو، انھوں نے کہا کہ اے میری قوم! خدا کی پرستش کرو ،کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تمھارے پروردگار کی جانب سے روشن دلیل آچکی ہے، بنابریں جو پیمانہ اور ترازو کا حق ہے اسے ادا کرو، اور لوگوں کے مالوں میں سے کچھ کم نہ کرو،اور جب کہ (ایمان اور دعوت انبیاء کی وجہ سے) روئے زمین پر اصلاح ہوچکی ہے، اس میں فساد نہ کرو، یہ تمھارے واسطے بہتر ہے اگر تم با ایمان ہو ۔

۸۶۔ اور ہر راستے پر نہ بیٹھو تاکہ (با ایمان لوگوں کو) دھمکیاں دو ،اور مومنو کو راہ راست سے روکو، اور (طرح طر ح کے شبہے ڈال کر ) اس راہ کو ٹیڑھا دکھلاؤ، اور یاد کرو اس وقت کو جب تم بہت تھوڑے تھے اس نے تم کو کثرت عطا کی اور دیکھو کہ مفسدوں کا کیا انجام ہوا!۔

۸۷۔ اور جو کچھ ہم نے بھیجا ہے اس پر اگر ایک گروہ ایمان لایا،اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا، تو اس پر صبر کرو، تاکہ خدا ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

۸۸۔ اس ( شعیب(علیه السلام) ) کی قوم کے طاقتور اور متکبر لوگوں نے کہا: اے شعیب ہم قسم کھاتے ہیں کہ تمہیں اور جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں انہیں ہم اپنی آبادی سے باہر نکال دیں گے، یا یہ کہ تم ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آؤ، (اس پر) انھوں نے کہا: (تم چاہتے ہو کہ ہم کو پلٹاؤ) چاہے ہم اسے ناپسند بھی کرتے ہوں؟۔

۸۹۔ اگر ہم تمھارے مذہب کی طرف پلٹ آئیں، جب کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دے دی ہے، تو گویا ہم نے اللہ پر بہتان باندھا ہے، اور ہمارے لئے یہ سزا وار نہیں ہے کہ ہم اس مذہب کی طرف دوبارہ پلٹ آئیں مگر یہ کہ خود ہمارا رب یہ چاہے، ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز پر محیط ہے، ہم نے صرف اللہ پر توکل کیا ہے، اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر، کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والاہے ۔

۹۰۔ان(شعیب (علیه السلام)) کی قوم کے انبڑے لوگوں نے کہا جو کافر ہوگئے تھے: اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو تم گھاٹے میں رہو گے ۔

۹۱۔ پس زلزلے نے ان کو آلیا،اور انھوں نے اس حالت میں صبح کی کہ ان کے بے جان بدن ان کے گھروں میں پڑے ہوئے تھے ۔

۹۲۔ جن لوگوں نے شعیب کی تکذیب کی (اس طرح نابود ہوگئے کہ) گویا ہرگز ان (گھروں ) میں آباد ہی نہ تھے، جن لوگوں نے شعیب کی تکذیب کی وہی گھاٹے اٹھانے والے تھے ۔

۹۳۔ پس اس (شعیب (علیه السلام)) نے ان لوگوں سے رخ پھیر لیا، اور کہا کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے رب کی رسالت پہنچادی تھی اور تم کو نصیحت (بھی) کی تھی، لہذا (اس حال میں) میں کافر قوم پر کیسے افسوس کروں!۔

۹۴۔ ہم نے کسی شہر اور آبادی میں کوئی نبی نہیں بھیجا، مگریہ کہ اس کے رہنے والوں کو سختیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ (ہوش میں آئیں اور خدا کی طرف) پلٹیں ۔

۹۵۔ اس کے بعد(جس وقت کسی تنبیہ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تو ) ہم نے ان کے لئے نیکی (اور نعمت کی فراوانی ) کوبجائے بدی (اور تکلیف واذیت) کے قرار دیا، اس طرح کہ ان کے لئے  ہر طرح کی (نعمت میں ) زیاد ہوگئی (اور نعمتوں میں اس قدر اضافہ ہوتاگیا  یہاں تک کہ وہ مغرور ہوگئے اور) کہنے لگے(ہم ہی کوئی مشکلات میں گرفتار ہوئے ہیں بلکہ) ہمارے آباوٴ اجداد کو  بھی تکلیفیں اور راحتیں پہنچی تھی، پھر ہم نے انہیں یکا یک پکڑ کیاایسی حالت میں کہ ان کو اس کا (پہلے سے ) احساس نہ ہو ۔

۹۶۔اگر وہ لوگ جو شہروں اور آبادی میں رہتے ہیں خدا پر ایمان لے آتے، اور تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھو ں نے (حقائق کی) تکذیب کی تو ہم نے بھی انھیں ان کے اعمال کی سزا دی ۔

۹۷۔کیا ان آبادیوں کے رہنے والے اس بات سے مطمئن و محفوظ ہیں کہ ہمارا عذاب رات کے وقت ان پر نازل ہوجائے جب کہ وہ (میٹھی) نید کے مزے لے رہے ہوں؟۔

۹۸۔کیا ان آبادیوں کے رہنے والے اس بات سے مطمئن و محفوظ ہیں کہ ہمارا عذاب دن کے وقت ان پر نازل ہوجائے جب کہ وہ کھیل کود میں مشغول ہوں ۔

۹۹۔جب کہ وہ اللہ کی تدبیر سے غافل ہیں، حالانکہ اللہ کی تدبیر سے سوائے خسارہ اٹھانے والوں کے اورکوئی مطمئن نہیں ہوتا ۔

۱۰۰۔کیا وہ لوگ جوپہلے لوگوں کے بعد روئے زمین کے وارث ہوئے ہیں، اس بات سے عبرت نہیں لیتے کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو بھی (اگلوں کی طرح) ان کے گناہوں کی پاداش میں سزا دیں (بات یہ ہے ) ہم ان کے دلوں پر مہر لگادیتے ہیں تاکہ وہ (حق کی آوازکو) نہ سن سکیں ۔

۱۰۱۔یہ وہ آبادیاں ہیں جن کے واقعات ہم تم سے بیان کرتے ہیں وہ ( اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ ) جب ان کے پاس رسول بینات(روشن بیانیاں) لے کر آئے تو وہ چونکہ سابقا( حق کی )تکذیب کر چکے تھے اس لئے ( ان پر) ایمان نہ لائے، اللہ اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگاتا ہے ۔

۱۰۲۔ہم نے ان میں سے اکثر کو اپنے عہد پر باقی نہ پایا، بلکہ ہم نے ان میں سے اکثر کو فاسق پایا ۔

۱۰۳۔اس کے بعد ان کے پیچھے ( یعنی گذشتہ انبیاء کے بعد) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے گروہ کی طرف بھیجا، لیکن ان لوگوں نے (ان نشانیوں کو قبول نہ کرکے) ان کے ساتھ ظلم کیا، دیکھو مفسدوں کا انجام کیا ہوا ؟۔

۱۰۴۔اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں سارے جہانوں کے پالنے والے کا فرستادہ ہوں ۔

۱۰۵۔میرے لئے یہی مناسب ہے کہ میں خدا کی طرف سوائے حق کے کسی بات کی نسبت نہ دوں، میں تمھارے لئے تمھارے خدا کی طرف سے روشن دلیل لایا ہوں، لہٰذا تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو ۔

۱۰۶۔فرعون نے کہا ! اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو اس کو پیش کرو اگر تم سچے ہو ۔

۱۰۷۔اس پر انھوں نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک نمایا اژدہا بن گیا ۔

۱۰۸۔اور اپنے ہاتھ کو (گریبان سے) باہر نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے لئے سفید(اور درخشاں)ہوگیا ۔

۱۰۹۔ قوم فرعون کے بڑے لوگوں نے کہا: بے شک یہ ایک ماہر اور زیادہ پہنچا ہوا جادوگر ہے ۔

۱۱۰۔یہ چاہتا ہے کہ تمھیں تمھاری سرزمین سے باہر نکال دے، اب تمھاری رائے کیا ہے؟(اس کے مقابلے میں کیا ہمیں کرنا چاہئے) ۔

۱۱۱۔(اس کے بعد) انھوں نے (فرعون سے یہ) کہا کہ اس کے اور اس کے بھائی کے معاملے کو تاخیر میں ڈال دو اور جادوگروں کے اکٹھا کرنے والوں کو تمام شہروں میں بھیج دو ۔

۱۱۲۔تاکہ وہ آزمودہ جادوگر کو تمھارے پاس لے آئیں ۔

۱۱۳۔جادوگر فرعون کے پاس آئے ،اور انھوں نے کہا: اگر ہم غالب ہوگئے تو ہمیں کوئی اہم معاوضہ ملے گا ؟۔

۱۱۴۔(فرعون نے) کہا: ہاں (ضرور ملے گا اور )تم لوگ(میرے )مقرّبین میں سے ہوجاؤ گے ۔

۱۱۵۔(جب مقابلہ کا دن آگیا توجادوگروں نے )کہا: اے موسیٰ یا تو تم (پہلے اپنے جادو گروں کے وسائل کو(عصا) ڈالو، یا ہم (اپنا جادو )ڈالیں ۔

۱۱۶۔(موسیٰ نے ) کہا تم (پہلے) ڈالو، اور جب انھوں نے (اپنے جادوؤں کو) ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی، اور لوگوں کو ڈرادیا اور انھوں نے ایک عظیم جادو پیش کیا ۔

۱۱۷۔(اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ (ذرا) اپنے عصا کو  توسامنے ڈال دو(جونہی موسیٰ نے عصا ڈالاتو ) وہ فوراً( اس نے ایک بڑے اژدھے کی شکل اختیار کرلی اور)بڑی تیزی کے ساتھ ان کے جھوٹے وسیلوں کو نگل گیا ۔

۱۱۸۔اس موقع پر حق  آشکار ہوگیا، اور جو کچھ انھوں نے ( کھیل) انجام دیاتھا نابود ہوگیا ۔

۱۱۹۰۔وہ اس موقع پر سب مغلوب اورذلیل وخوار ہوگئے ۔

۱۲۰۔اور جادوگر سب کے سب سجدہ میں گر گئے ۔

۱۲۱۔اور انھوں نے کہا:ہم جہانوں کے پروردگار پر ایمان لائے ہیں ۔

۱۲۲۔جو موسیٰ وہارون کا پروردگار ہے ۔

۱۲۳۔فرعون نے کہا(ہائیں) تم اس (موسیٰ ) پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اس کی اجازت دو، یقینا یہ ایک (زبردست) سازش ہے جو تم لوگوں نے اس شہر میں رچی ہے، تاکہ اس سے اس کے ساکنوں کو نکال باہر کردو،(اچھا) تمہیں کچھ دیر کے بعد پتہ چلے گا ۔

۱۲۴۔میں قسم کھاتا ہوں کہ میں تمھارے ہاتھ پیروں کو ایک دوسرے کے الٹ (یعنی ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پیر ) کاٹ ڈالوں گا، اس کے بعد تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا ۔

۱۲۵۔(ساحروں نے) کہا( یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے) ہم اپنے پروردگار کی طرف پلٹ جائیں گے ۔

۱۲۶۔تیرا جو کچھ بھی غصہ ہمارے اوپر ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے پروردگار کی نشانیوں پر جب کہ وہ ہمارے پاس آئیں، ایمان لے آئے، خدایا! ہمارے اوپر صبر (واستقامت ) کو اچھی طرح انڈیل دے، اور ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ ہم مسلمان ہوں، ( اور زندگی کے آخری لمحوں تک ہمارے ایمان واخلاص کو باقی رکھ) ۔

۱۲۷۔قومِ فرعون کے سرداروں نے اس سے کہا:کیا موسیٰ اور ان کی قوم کو آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد کرتے پھریں اور تجھے اور تیرے خداؤں کو ترک کردیں ،(فرعون نے ) کہاعنقریب میں ان کے لڑکوں کو قتل کردوں گا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دوں گا ( تاکہ وہ ہماری خدامت کریں) اور ہم پورے طور سے ان پر مسلط ہیں ۔

۱۲۸۔موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا :خدا سے مدد چاہو اور صبر اختیار کرو کہ زمین خدا ہی کی ہے ، اپنے بندوں میں وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔

۱۲۹۔انھوں نے کہا کہ (اے موسیٰ )تمھارے آنے سے قبل بھی ہم نے بہت اذیتیں دیکھیں اور اب تمھارے آنے کے بعد بھی ہم دکھ جھیل رہے ہیں (آخر ان مصائب کا خاتمہ کب ہوگا ؟ )موسیٰ نے کہا: مجھے امید ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے دشمن کو ہلاک کردے گا، اور تمھیں زمین اس کا جانشین بنادے گا، تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح کا عمل کرتے ہو ۔

۱۳۰۔اور ہم نے قوم فرعون کو خشک سالی اور میووں کی کمی میں مبتلا کیا تاکہ وہ بیدار ہوجائیں ۔

۱۳۱۔لیکن انھوں (نہ صرف یہ کہ نصیحت قبول نہ کی بلکہ ) جب انھیں کوئی اچھائی (اور نعمت )ملی تو وہ کہتے تھے کہ یہ خود ہماری وجہ سے ہے! پھر جب کوئی برائی (اور مصیبت ) آتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست سے ہے! کہو ان تمام بد فالیوں کا سرچشمہ خدا کے پاس ہے (وہ تمھاری بد اعمالیوں کی وجہ سے تم کو سزا دیتا ہے) لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے ۔

۱۳۲۔اور انھوں نے کہا کہ(اے موسیٰ) جب تم کوئی ایسی آیت ہمارے پاس لاؤ کہ اس سے تم ہم پر جادو کردو ہم پھر بھی تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔

۱۳۳۔پس ہم نے ان پر ( لگاتاربلائیں نازل کیں )طوفان، ٹڈیاں، زراعتی آفت ، مینڈک اور خون جو الگ الگ نشانیاں تھیں ، بھیجیں (لیکن وہ پھر بھی بیدار نہ ہوئے )اور انھوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے ۔

۱۳۴۔جب ان پر بلا نازل ہوتی تھی تو وہ کہتے تھے اے موسیٰ ! اپنے خدا سے کہو کہ جو عہد اس نے تم سے کیا ہے اس کے مطابق کرے، اگر تم اس بلا کو ہم سے دور کردوگے تو ہم یقینا تمھارے اوپر ایمان لے آئیں گے، اور بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ بھیج دیں گے ۔

۱۳۵۔لیکن جب وہ ایک معینہ مدت تک پہنچتے تھے اور ہم ان سے بلا دور کردیتے تھے، تو اہ اپنے عہد کو توڑ دہتے تھے ۔

۱۳۶۔آخر کار ہم نے ان سے انتقام لیا، اور ان سب کو دریا میں غرق کردیا ،کیوں کہ انھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، اور وہ ان سے غافل رہے تھے ۔

۱۳۷۔ اور ہم نے وارث بنایا زمین کے مشرق ومغرب کا اس قوم کو جسے (ظلم وستم کی زنجیروں میں جکڑ کے ) کمزور کردیا گیا تھا، اور بنی اسرائیل نے چونکہ صبر کیا اس لئے تیرے رب کا نیک وعدہ ان کے لئے پورا ہوا،اور جو (قصرِ مجلّل ) فرعون اور اس کی قوم نے بنائے تھے اور جو مچان دار باغات انھوں نے تیار کئے تھے ان سب کو ہم نے مسمار کردیا ۔

۱۳۸۔اور بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے (صحیح وسالم) پار لگا دیا، پھر وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جواپنے بتوں کے چاروں طرف تعظیم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو انھوں (بنی اسرائیل) نے کہا : اے موسیٰ ! ہمارے لئے بھی ایک ایسا معبود بنادو جیسے معبود ان لوگوں نے بنا رکھے ہیں، (موسیٰ نے) کہا: تم جاہل اور نادان لوگ ہو ۔

۱۳۹۔ان لوگوں ( کو جنھیں تم دیکھ رہو ہو ان ) کا انجام نابودی ہے اور یہ جو کچھ کررہے ہیں وہ سب باطل اوربیہودہ بات ہے۔

۱۴۰۔(اس کے بعد) اس (موسی)نے کہا: کیا میں خدائے برحق کے علاوہ کوئی دوسرا معبود تمھارے لئے چاہوں، ایسا خدا جس نے تمھیں تمھارے عصر کے لوگوں پر برتری عطا کی ہے ۔

۱۴۱۔تم یاد کرو اس زمانہ کو جب ہم نے تمھیں فرعون والوں (کے پنجہٴ ظلم) سے نجات دی، وہ تم پر مسلسل ظلم کررہے تھے، تمھارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اورعورتوں کو زندہ چھور دیتے تھے،اس میں تمھارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش ہے ۔

۱۴۲ ۔اور ہم نے موسی سے (۳۰)راتوں کا وعدہ کیا، پھر ہم نے دس راتوں سے ان کی تکمیل کردی ، اس طرح اس کے پر وردگار کا وعدہ (۴۰)راتوں پر تمام ہوا، اور موسی نے اپنے بھائی ہارون سے کہا : میری قول میں میرے جانشین بن جاؤ،اور ان کے کاموں کی اصلاح کرو،اور مغروروں کی راہ کی پیروی نہ کرو۔

۱۴۳ ۔اور جس وقت موسیٰ ہماری میعادگاہ میں آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے بات کی تو انھوں نے عرض کیا: اے پرودگار! تو اپنے کو مجھے دکھلادے تاکہ مَیں تجھے دیکھو لوں ،(پروردگار نے) کہا :تم مجھے ہرگز نہ دیکھ پاؤ گے! لیکن (ذرا) پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو مجھے دیکھ سکوگے لیکن جب پروردگار نے پہاڑ پر (اپنا) جلوہ کیا تو اسے (گراکر) زمین کے برابر کردیا، اورموسیٰ بیہوش ہوکر گرگئے، جب وہ ہوش میں آئے تو انھو ں نے عرض کیا: خدایا! تو اس بات سے منزّہ ہے (کہ تجھے کوئی دیکھ سکے) مَیں تیری جانب واپس آتا ہوں،  اورمیں مومنوں میں سے پہلا ہوں ۔

۱۴۴۔ (خدا نے) کہا: اے موسیٰ میں نے تمھیں لوگوں پر اپنی رسالت کے ذریعے اور (تم سے) اپنے کلام کے ذریعے منتخب کیا، پس جو کچھ میں نے تمھیں دیا ہے اسے لے لو اور شگرگزاروں میں سے ہوجاؤ۔

۱۴۵۔ اور ہم نے ان کے لئے الواح میں ہر قسم کی نصیحت لکھی تھی،اور ہر چیز کا بیان کیا تھا، پھر (ہم نے ان سے کہا کہ) اسے مضبوطی سے تھام لو، اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اچھی طرح اس پر عمل کریں (اور وہ لوگ جو مخالفت کریں ان کا انجام دوزخ ہے) جلد ہی فاسقوں کی (یہ) جگہ ہم تمھیں دکھلادیں گے ۔

۱۴۶۔ جو لوگ زمین میں ناحق تکبّر کرتے ہیں ان کو میں اپنی آیتوں  (پر ایمان لانے سے) جلد ہی پلٹ دوں گا ،(اس طرح کہ) وہ جس آیت کو بھی دیکھیں گے اس پر ایمان نہ لائیں گے، اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں گے تو اس پر نہ چلیں گے،اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں گے تو اس کو اختیار کریں گے، یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیااور وہ ان سے غافل تھے ۔

۱۴۷۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیت کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے، جو کچھ انھوں نے کیا ہے کیا اس کے علاوہ کی ان کو سزا ملے گی؟

۱۴۸۔ قومِ موسیٰ نے اس کے (میعادگاہ الٰہی کی طرف جانے کے) بعداپنے زیورات سے  ایک بچھڑا کا مجمسہ بنایا، جس میں گائے کی  سی آواز تھی، کیا وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرسکتا اور راہ (راست) کی طرف ہدایت نہیں کرسکتا تھا، انھوں نے اس کو (بطور اپنے خدا کے) انتخاب کرلیا، اور وہ ظالم تھے ۔

۱۴۹۔ اور جب انھیں حقیقت کا پتہ چلا اور انھوں نے دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو انھوں نے کہا: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو تم ہم ضرور گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے

۱۵۰۔ جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف غضبناک اور رنجیدہ پلٹے تو انھوں نے کہا کہ تم لوگ میرے بعد میرے بُرے جانشین نکلے (اور تم نے میرے آئین کو ضائع کردیا)کیا تم نے اپنے رب کے فرمان کے (اور مدّت میعاد کی تمدید اور فیصلہ کے) بارے میں عجلت سے کام لیا؟! اس کے بعد انھوں نے الواح کو ڈال دیا اور اپنے بھائی کا سرپکڑ لیا اور (غصّہ میں اسے) اپنی طرف کھینچا، اس نے کہا اے میرے ماں جائے! اس قوم نے مجھے کمزور کردیا، اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیں، لہٰذا کوئی ایسا کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ دشمن میری شماتت کریں اور مجھے ظالم گروہ میں قرار نہ دو۔

۱۵۱۔ (موسیٰ نے) کہا: پروردگارا! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے،اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر، اور تُو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔

۱۵۲۔ وہ لوگ جنھوں نے گوسالہ کو اپنا معبود بنایا  وہ عنقریب اپنے رب کے غضب میں مبتلا ہوں گے، اور حیاتِ دنیا میں گرفتارِ ذلت ہوں گے، اور ہم ان لوگوں کو جو (خدا پر) بہتان باندھتے ہیں، سزا دیتے ہیں ۔

۱۵۳۔ اور وہ لوگ جو گناہ کریں اور اس کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لائیں (انھیں بخشش کی امید ہے کیونکہ) تیرا رب اس (توبہ) کے بعد ضرور بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

۱۵۴۔ اور موسیٰ کا غصّہ ٹھنڈا ہوا تو انھوں نے (توریت کی) الواح کو اٹھایا، اور اس کے اندر ان لوگوں کے لئے جو اب رب ڈرتے ہیں ہدایت اور حمت لکھی ہوئی تھی ۔

۱۵۵۔ اور موسیٰ نے ہماری میعادگاہ کے لئے اپنی قوم میں سے ستّر مَردوں کو چُنا، پھر جب زلزلہ نے انھیں آلیا (اور وہ ہلاک ہوگئے) تو کہا: میرے پروردگار! اگر تو چاہتا تو انھیں اور مجھے اس (واقعہ) سے پہلے بھی ہلاک کردیتا، کیا تو ہمیں اس چیز کی وجہ سے ہلاک کرے گا جو ہم میں سے بعض نادانوں نے کی ہے، یہ صرف تیری ایک آزمائش ہے، جسے تُو جسے چاہے (مستحقِ گمراہی جانے) گمراہ کردے،اور جسے تو چاہے (اور مستحقِ ہدایت جانے اسے) ہدایت عطا کردے، تُو ہمارا ولی ہے لہٰذا ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم کر اور تُو تمام بخشنے والوں سے بہتر ہے ۔

۱۵۶۔ اور ہمارے لئے اس دار دنیا میں اور دوسری دنیا  (آخرت) میں نیکی لکھ دے ،کیونکہ ہم نے تیری طرف بازگشت کی ہے (الله نے) کہا: میرا عذاب جسے مَیں چاہوں گا پہنچے گا،اور میری رحمت نے ہر چیز کو اپنے اندر لیا ہُوا ہے ، لہذامیں اسے ان  لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکات دیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لایں  گے۔

۱۵۷۔ جو لوگ (خدا کے اس) فرستادہ نبی اُمّی کی پیروی کرتے ہیں،جس کی صفات وہ اپنے پاس توریت وانجیل میں پاتے ہیں، اور یہ نبی انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور بدی سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال قرار دیتا ہے، ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے، اور وہ ان سے  سنگین بوجھ  اور زنجیریں ہٹاتا ہےجو ان کے گلوں اور کاندھوں پر پڑی تھیں، پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور انھوں نے اس کی حمایت کی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس پر نازل ہوا ہے، وہ کامیاب ہیں ۔

۱۵۸۔ (اے رسول) کہدو: اے لوگو! میں تم سب کی طرف الله کا فرستادہ ہوں، وہ الله جس کے قبضہٴ قدرت میں زمین وآسمان کی حکومت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جِلاتا اور مارتا ہے، لہذا الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جس نے کسی کے آگے سبق نہیں پڑھا ہے، وہ الله اور اس کے کلموں پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاجاؤ۔

۱۵۹۔ اور قومِ موسیٰ میں سے ایک گروہ حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور اسی حق کے ساتھ عدال و انصاف کرتا ہے ۔

۱۶۰۔ اور ہم نے انھیں بارہ گروہوں میں تقسیم کردیا، جس میں سے ہر ایک گروہ (بنی اسرائیل کے خاندانوں کی) ایک شاخ تھا ،اور جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم (جو بیابان میں تشنہ کام تھی) کے لئے پانی مانگا تو ہم نے ان کی طرف وحی نازل کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، ناگہاں اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، اس طرح کہ ہر گروہ اپنے چشمے کو پہچانتا تھا، اور ہم نے بادل کو ان کے اوپر سایہ فگن کیا، اور ہم نے ان پر من وسلویٰ نازل کیا، اور ان سے کہا: ہم نے جو پاکیزہ روزی تمھیں عطا کی ہے اس میں سے کھاؤ (اور الله کا شکر بجالاؤ لیکن انھوں نے شکر کی بجائے ہماری نافرمانی اور ظلم کیا) لیکن انھوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنی جانوں پر ستم ڈھایا ۔

۱۶۱۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ان لوگوں سے یہ کہا گیا کہ اس قریہ (بیت المقدس) میں سکونت اختیار کرو ،اور ہر جگہ سے (اور ہر طرح سے) جیسا چاہو کھاؤ (اور فائدہ حاصل کرو)، اور یہ کہو کہ بارالٰہا! ہمارے گناہوں کو گرادے، اور دروازہٴ (بیت المقدس) میں تواضع وفرتنی کے ساتھ داخل ہوجاؤ، اگر ایسا کروگے تو میں تمھارے گناہوں کو بخش دوں گا، اور نیک کام کرنے والوں کا صلہ زیادہ کروںگا ۔

۱۶۲۔ لیکن ان میں سے وہ لوگ جنھوں نے (اپنے اوپر) ظلم وستم کیاتھا، اس بات کوجو ان سے کہی گئی تھی  (تمسخر کی صرت میں )بدل ڈالا، انھوں نے اس کے خلاف کیا، لہٰذا جو ستم انھوں نے کیا تھا ہم نے اس کی وجہ سے ان پر آسمان سے بَلا نازل کی ۔

۱۶۳۔ اور ان سے سوال کرو اس شہر کی سرگزشت کے متعلق جو سمندر کے کنارے پر آباد تھا جب ہفتہ کے روزتجاوز  (اور خدا کی نافرمانی)کرتے تھے؛ جب مچھلیاں ہفتہ کے روز  سطح آب پر ظاہر ہوتی تھیں جو اُن کی چھٹی اور عبادت کا دن تھا) اس کے علاوہ دوسرے روز وہ ان کے پاس نہیں آتی تھیں، اس طرح ہم نے ان کی آزمائش کی جس کی انہوں نے نافرمانی کی  ۔

۱۶۴۔ (اور اس وقت کو یاد کرو) جبکہ ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا کہ تم ان گنہگاروں کو کیوں موعظہ کرتے ہو جنھیں خدا آخرکار ہلاک کرنے والا ہے یا  شدیدعذاب کرنے والا ہے، (ان کو اپنے حال پر چھوڑدو تا کہ وہ ہلاک ہو جائیں) انھوں نے کہا:یہ نصیحتیں تمھارے پرورگار کے سامنے اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے ہیں، علاوہ ازایں شاید وہ ان کی بناء پر (اپنے گناہوں سے باز آجائیں) اور تقویٰ اختیار کرلیں ۔

۱۶۵۔ لیکن جب انھوں نے ان تمام نصیحتوں کوفراموش کردیا جو انھیں وقتاً فوقتاً دی جاتی رہیں تو ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو (لوگوں کو برائی سے) منع کرتے رہے تھے، اور جن لوگوں نے ستم کیا تھا انھیں ان کی نافرمانی کی وجہ سے شدید عذاب میں مبتلا کردیا ۔

۱۶۶۔ جب ان لوگوں نے اس فرمان کے مقابلے میں سرکشی کی جو انھیں دیا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ دھتکارے ہوئے بندروں کی شکل میں ہوجاؤ۔

۱۶۷۔ اور (اس وقت کو بھی یاد کرو )جب تیرے پروردگارنے یہ خبر دی کہ وہ قیامت تک کے لئے ان پر لوگوں کو مسلط کردے گا جو انھیں ہمیشہ سخت عذاب دیں گے، بے شک تیرا رب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور (توبہ کرنے والوں کے لئے) بڑا بخشنے والا اور مہربان (بھی) ہے ۔

۱۶۸۔ اور ہم نے انھیں زمین پر مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا، ان میں کچھ گروہ نیکوکار اور کچھ اس کے علاوہ ہیں، اور ہم نے ان کی آزمائش کی نیکیوں اور بدیوں کے ذریعے کہ شاید وہ (ہماری طرف) پلٹیں ۔

۱۶۹۔ ان کے بعد ان کے وہ فرزند ان کے جانشین ہوئے جو (آسمانی) کتاب (توریت) کے وارث بنے (لیکن ان کی یہ حالت تھی کہ) وہ اپنے دنیائے دنی کے مال ومتاع کو اختیار کرتے تھے (اور اسے الٰہی احکام پر ترجیح دیتے تھے) اور یہ کہتے تھے کہ (اگر ہم گنہگار ہیں تو) خدا ہمیں جلد ہی بخش دے گا (ہم اپنے کیے پر پشیمان ہیں) لیکن اگر اس کے بعد پہلے متاع کی مثل ان کے پاس آتا ہے تو اسے پھر لے لیتے ہیں، (اور دوبارہ حکمِ خدا کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں) کیا ان سے (خدا کی) کتاب کا یہ پیمان نہیں لیا گیا ہے کہ خدا کی طرف کسی بھی جھوٹ کو نسبت نہ دیں اور سوائے حق کے کوئی بات نہیں کہیں گے اور انھوں نے جو اس میں ہے اسےبارہا پڑھا ہے اور ان لوگوں کے لئے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔

۱۷۰۔ اور وہ لوگ جو کتاب (خدا) سے تمسک اختیار کریں اور نماز قائم کریں (انھیں بڑا انعام ملے گا کیونکہ) ہم اصلاح کرنے والوں کی جزا ضائع نہیں کرتے ۔

۱۷۱۔ اور (اس بات کو بھی یاد کرو)جب ہم نے پہاڑ کو ایک سائبان کی طرح ان کے اوپر اس طرح سایہ فگن کیا کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ وہ عنقریب ان کے اوپر آپڑے گا (اور اس حال میں ہم نے ان سے عہد لیا اور کہا) جو کچھ تمھیں (احکام وفرامین) کی صورت میں دیا گیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو، اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو (اور ا س پر عمل کرو) تاکہ پرہیزگار بن جاؤ۔

۱۷۲۔ اُ س وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے اولادِ آدم کی صلب سے ان کی ذریت کو لیا،اور اُنھیں اُن کے اپنے نفسوں پر گواہ بنایا (اور پھر اُن سے سوال کیا) کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں ۔ اُنھوں نے کہا:کیوں نہیں ،ہم گواہی دیتے ہیں ۔ (خدا نے ایسا کیوں کہا) اس لئے کہ وہ قیامت کے دِن یہ عذر پیش نہ کرسکیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا (اور ہم توحید اور خدا کو جاننے کے فطری عہدسے بے خبر تھے) ۔

۱۷۳۔ یا تم یہ نہ کہو کہ ہمارے آباء واجداد تو بُت پرستی کرتے تھے اور ہم بھی تو اُن ہی کی اولاد تھے (لہٰذا اُن کی پیروی کرنے کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی راستہ نہ تھا)کیا تو جو کچھ باطل پرستوں نے کیا، ہمیں اُس پر سزا دیتا ہے اور ہلاک کرلے گا ۔

۱۷۴۔ اور ہم اپنی آیات کو اس لئے کھول کر بیان کرتے ہیں کہ شاید وہ حق کی طرف لوٹ آئیں ،(اور یہ جان لیں کہ توحید کی آواز کی رُوح کی گہرائیوں میں اوّل دِن سے موجود تھی) ۔

۱۷۵۔ اور اُن کے لئے اُس شخص کی سرگزشت پڑھو کہ جسے ہم نے اپنی آیات دیں، لیکن (آخر کار) وہ ان کے (حکم) سے نکل گیا، اور شیطان نے اُس پر غلبہ پالیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا ۔

۱۷۶۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس (مقام) کو ان آیات (اور علوم ودانش) کے ساتھ اُوپر لے جاتے (لیکن جبر کرناہماری سنّت کے خلاف ہے، لہٰذا ہم نے اُسے اُس کی حالت پر چھوڑدیا) لیکن وہ پستی کی طرف مائل ہوا اور اس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی، اور وہ (باؤلے) کتّے کی مانند ہے کہ اگر اُس پر حملہ کردیا تو اپنا منھ کھول دیتا ہے اور زبان باہر نکال دیتا ہے اور اگر اُسے اُس کے حال پر چھوڑدیا جائے تو پھر بھی یہی کام کرتاہے؛ ( گویا دُنیاپرستی کا اتنا پیاسا ہے کہ کبھی سیراب نہیں ہوتا) یہ اُس گروہ کی مانند ہے کہ جس نے ہماری آیات کو جھٹلایا، یہ کہانیاں (اُن سے) بیان کرو، شاید وہ غور وفکر کریں (اور ہوش میں آجائیں) ۔

۱۷۷۔ کتنی بُری مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں، لیکن وہ تو خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔

۱۷۸۔ وہ جسے خدا ہدایت کرے (حقیقی) ہدایت پانے والا وہی ہے ،اور انھیں (اُن کے اعمال کی وجہ سے) گمراہ کرے اور وہ (واقعی) خسارے میں ہیں ۔

۱۷۹۔ یقیناً جن وانس کے بہت سے گروہوں کو ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے،وہ ایسے دل (اور ایسی عقل ) والے ہیں کہ جن سے (وہ سوچتے نہیں اور) سمجھتے نہیں اور ایسی آنکھیں رکھتے ہیں کہ جن سے و دیکھتے نہیں اور ایسے کان رکھتے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں، وہ چوپاؤں کی طرح ہیں ، بلکہ ان سے بھی زیادہ  گمراہ ، (اور) وہ غافل ہیں (کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے تمام تر اسباب میسّر ہونے کے باوجود گمراہ ہیں) ۔

۱۸۰۔ خدا کے بہترین نام ہیں ؛ اسے انہی ناموں سے پُکاروں، اور انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں تحریف کرتے ہیں ۔ (اور یہ نام اس کے غیر کے لئے رکھتے ہیں اور اس کے لئے شریک کے قائل ہیں) وہ عنقریب اپنے کردہ (بُرے) اعمال کی سزا پائیں گے ۔

۱۸۱۔ اور جنھیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو حق کی تبلیغ کرتا ہے ۔اور اسی سے عدل قائم کرتا ہے۔

۱۸۲۔ اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم تدریجاً انھیں اس جگہ سے سزادیں گے کہ وہ جان بھی نہ سکیں گے ۔

۱۸۳۔ اور انھیں ہم مہلت دیں گے (تاکہ ان کی سزا زیادہ دردناک ہوجائے) کیونکہ میرا منصوبہ قوی (اور حساب و کتاب کے مطابق) ہے (اور کوئی شخص اس سے فرار کی قدرت نہیں رکھت )

۱۸۴۔ کیا وہ سوچتے نہیں کہ ان کا ہم نشین (پیغمبر خدا) پر کوئی جنون کے آثار نہیں ہیں، (تو پھر وہ کس طرح اس پر ایسے بے ہودہ الزام لگاتے ہیں) وہ تو صرف ان کو ڈرانے والا ہے (جو لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے) ۔

۱۸۵۔ کیا وہ آسمان و زمین کی حکومت میں جسے خدانے پیدا کیا ہے (توجہ سے عبرت کی) نظر نہیں ڈالتے، (اور کیا اس میں بھی فکر نہیں کرتے کہ) شاید ان کی زندگی ختم ہونے کے قریب ہے (اگر وہ اس واضح آسمانی کتاب پر ایمان نہ لائے) تو اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے ۔

۱۸۶۔ جسے خدا (اس کے برے اعمال کے بدلے) گمراہ کردے تو پھر کوئی اسے ہدایت کرنے والا نہیں ہے، اور خدا انھیں ان کی بغاوت اور سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں ۔

۱۸۷۔  (اے رسول )تجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، کہہ دو : اس کا علم میرے پروردگار کو ہے،اور اس کے علاوہ کوئی اس وقت کو واضح نہیں کرسکتا (لیکن قیامت کا قیام) آسمانوں اور زمین (تک) میں سخت (اہمیت کا حامل) ہے اور وہ تمھارے تعاقب میں نہیں آئے گی مگر یہ کہ اچانک اور ناگہانی طور پر۔ (پھر وہ) تجھ سے یوں سوال کرتے ہیں گویا تو اس کے وقوع پذیر ہونے کے زمانے سے باخبر ہے ۔ کہہ دو: اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔

۱۸۸۔ (اے ہمارے رسول) کہہ دو: میں اپنے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، مگر جو کچھ خدا چاہے،(اور پوشیدہ و غیب اسرار سے بھی باخبر نہیں ہوں مگر وہ کہ جس کا خدا ارادہ کرے) اور اگر میں غیب سے باخبر ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع فراہم کرلیتا اور مجھے کوئی برائی (اور نقصان) نہ پہنچتا ۔ میں تو صرف ایمان لانے والوں کے لئے (عذاب الٰہی سے) ڈرانے والا اور (اس کی عظیم جزاؤں کی) خوشخبری دینے والا ہوں ۔

۱۸۹۔وہ خدا وہ ہے کہ جس نے تمھیں ایک ہی شخص سے پیدا کیا ہے اور اس کی بیوی کو اس کی جنس (اور نوع) سے قرار دیا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔ اس کے بعد جب وہ اس سے نزدیک ہوا تو وہ ایک ہلکے سے بوجھ کے ساتھ حاملہ ہوگئی ،کہ جس کے ہوتے ہوئے وہ  اپنے کام میں مشغول رہی اور جب حمل سنگین ہو گیا تو دونوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی (کہ انھیں نیک اور صالح فرزند عطا کرے اور عرض کیا) کہ اگر تو نے ہمیں نیک فرزند عطا کیا تو ہم شکرگزاروں میں سے ہوں گے ۔

۱۹۰۔پس جب اس نے انھیں  (=نسل آدم کےماں باپوں کو) نیک بیٹا عطا دیا (تو انھوں نے  اس عطیہ میں دوسرے موجودات کو موٴثر سمجھا اور) خدا نے انھیں جو نعمت بخشی تھی اس میں شرکاء کے قائل ہوگئے اور جسے اس کا شریک قرار دیا جائے خدا اس سے برتر ہے ۔

۱۹۱۔کیا ایسے موجودات کو اس کا شریک قرار دیتے ہو جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود مخلوق ہیں ۔

۱۹۲۔اور نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں ۔

۱۹۳۔اور اگر تم انھیں ہدایت کی طرف دعوت دو تو تمھاری پیروی نہیں کرتے ۔ ان کے لئے اس میں کوئی فرق نہیں، چاہے انھیں دعوت دو یا خاموش رہو۔

۱۹۴۔ جنھیں وہ خدا کے علاوہ پکارتے ہیں (اور جن کی پرستش کرتے ہیں) تمھاری طرح کے بندے میں، اگر سچّے ہو تو انھیں پکارو اور انھیں چاہیے کہ وہ تمہارا جواب دیں (اور تمھارے تقاضوں کو پورا کریں) ۔

۱۹۵۔ کیا وہ (کم ازکم خود تمھاری طرح) پاؤں رکھتے ہیں کہ جن سے چلیں پھریں، یا ہاتھ رکھتے ہیں کہ جن سے چیز اٹھا سکیں (اور کوئی کام انجام دے سکیں) یا کیا وہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھ سکیں، یا ان کے کان ہیں کہ ان سے سن سکیں ،(نہیں ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں) کہہ دو: (اب جبکہ ایسا ہے تو) ان بتوں کو جنھیں تم نے خدا کا شریک بنارکھا ہے، (میرے خلاف) پکارو،اور میرے خلاف سازش اور مکروفریب کرو،اور لمحہ بھر کی مہلت نہ دو (تاکہ تمھیں معلوم ہوجائے کہ ان سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا) ۔

۱۹۶۔ (لیکن) میرا ولی اورسرپرست وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہےاور وہ سب نیکوکاروں اور صالحین کا سرپرست ہے ۔

۱۹۷۔ اور جنھیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمھاری مدد نہیں کرسکتے اور (یہاں تک کہ) اپنی بھی مدد نہیں کرسکتے ۔

۱۹۸۔ اور اگر ان سے ہدایت چاہو تو وہ تمھاری باتوں کو نہیں سنتے اور تم دیکھوگے کہ (وہ اپنی مصنوعی آنکھوں سے) تمھیں دیکھ رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ نہیں دیکھ سکتے ۔

۱۹۹۔ (بہر حال) ان سے نرمی بر تو اور ان کا عذر قبول کرلو، اور نیکیوں کی طرف دعوت دو اور جاہلوں سے رخ موڑلو (اور ان سے لڑائی جھگڑا نہ کرو) ۔

۲۰۰۔ اور جب شیطانی وسوسہ تجھ تک پہنچے تو خدا کی پناہ لے، کیونکہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

۲۰۱۔ پرہیزگار جب شیطانی وسوسوں میں گرفتار ہوتے ہیں تو (خدا اور اس کی جزا و سزا کی) یاد اور ذکر میں مصروف ہوجاتے ہیں (اور اس کی یاد ہی کے زیر سایہ وہ راہ حق دیکھ لیتے ہیں) پس وہ بینا ہوجاتے ہیں ۔

۲۰۲۔ (جو پرہیز گار نہیں) ان کے بھائی (یعنی شیاطین) انھیں ہمیشہ گمراہی میں آگے بڑھاتے رہتے ہیں، اور  (اس راہ میں)  کوئی کوتاہی نہیں کرتے ۔

۲۰۳۔ اور جب (نزول وحی میں تاخیر ہوجائے اور) تو ان کے لئے کوئی آیت نہ لاپائےتو کہتے ہیں تو خود سے (اپنی طرف سے) آیت کیوں نہیں چن لیتا ۔ کہہ دو کہ میں صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر ووحی ہوتی ہے، یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ایمان لانے والوں کے لئے بینائی کا وسیلہ اور ہدایت و رحمت کا ذریعہ اور سبب ہے ۔

۲۰۴۔ جب قرآن پڑھا جائے تو کان دھر کر سنو، اور خاموش رہوتا کہ رحمت خدا تمھارے شامل حال ہو۔

۲۰۵ ۔ اپنے پروردگار کو اپنے دل میں تضرع اور خوف سے آہستہ اور آرام سے صبح و شام یاد کر، اور غافلین میں سے نہ ہو ۔

۲۰۶۔ وہ جو (مقام قرب میں) تیرے پروردگار کے نزدیک ہیں کسی حالت میں اس کی عبادت کے بارے میں تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے لئے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma