کفر کی حالت میں مرنے والے نہیں بخشے جائیں گے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گذ شتہ آیات میں منافقین کے بارے میں مختلف زاویوںسے گفتگو کی گئی تھی اب ان آیات میں کفار کے ایک اورٹولے کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے ، ارشاد ہوتا ہے : بے شک جولوگ کافرہوگئے انہوں نے لوگوں کوخداکی را ہ سے رو کا اورحق ظا ہر ہوجانے کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کی تووہ خدا کوکچھ بھی نقصان نہیں پہنچا تے اورو ہ بہت جلد ان کے اعمال کا اکارت کردے گا (إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبیلِ اللَّہِ وَ شَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدی لَنْ یَضُرُّوا اللَّہَ شَیْئاً وَ سَیُحْبِطُ اٴَعْمالَہُمْ ) ۔
ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ وہی مشر کین مکّہ ہوں یامدینہ کے کافر یہودی ہوں یادونوں قسم کے لوگ ہوں ،کیونکہ ” کُفر“ اور ” صدعن سبیل اللہ “ (لوگوں کورا ہ خدا سے روکنا ) کی تعبیر قرآنی آیات میں دونوں قسم کے لوگوں کے بارے میں آئی ہے ۔
” تبیّن ھدایت“ مشرکین مکّہ کے بارے میں معجزات کے ذ ریعے تھی اوراہل کتاب کافروں کے بارے میں ان اشارہ ہے ۔
بہرحال ان لوگوں میں تین قسم کے صفات پائی جاتی تھیں ایک کُفر، دوسری ” صَدُّ عَنْ سَبیلِ اللَّہِ “ اور تیسری رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی ،صفت توخداکے ساتھ مخالفت پرمبنی تھی ، دوسری اس کے بندوں کے ساتھ مخالفت پر اور تیسر ی رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخالفت پر ۔
بعد کی آیت میں رُوئے سخن موٴ منین کی طرف ہے اورکفّار ومنافقین کے طرز عمل کوواضح کرنے کے بعد ان کے راستے کی ان الفاظ میں وضاحت کی گئی ہے : اے وہ لوگوںجوایمان لے آ ئے ہو ! خداکی اطاعت کرو ، رسول ِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اورا پنے اعمال کو باطل نہ کرو (یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ لا تُبْطِلُوا اٴَعْمالَکُم) ۔
حقیقت یہ ہے کہ مو منین کی تمام زندگی کفار و منافقین کی زندگی کے با لکل برعکس ہے کیونکہ کفار و منافقین فرمان ِ الہٰی کی مخالفت کرتے ہیں اور مومنین اطاعت کرتے ہیں وہ رسُول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی کرتے ہیں اور یہ آ پ کی فرمانبر داری اُن کے اعمال کُفر ، ریا کاری اوراحسان جتانے کے ذ ریعے اکارت ہوجاتے ہیں جبکہ مومنین کے اعمال ان چیزوں سے خالی ہوتے ہیں اوران کی جزا خداکے پاس محفوظ ہے ۔
بہرحال آیت کا انداز تبارہا ہے کہ اس زمانے میں کچھ ایسے مومنین بھی تھے جوخدا اورسُول کی اطاعت اوراپنے اعمال کی حفاظت کے معاملے میں کوتا ہی کیا کرتے تھے ، جنہیں خداوندعالم نے ان آیات کے ذ ریعے خبردار کیا ہے ۔
بعض فقہا نے ” “ کے ذ ریعے نماز کوتوڑنے کی حرمت پراستد لال قائم کیا ہے ،لیکن جیساکہ گذشتہ اور آ یندہ آیات اِسی طرح خود یہی آیت گواہی دے رہی ہیں کہ اس کا اس معنی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ شرک وکُفر ،ریا کاری اوراحسان جتانے وغیرہ کے ذ ریعے اپنے اعمال کوباطل نہ کرنا ہے ۔
اس سلسلے کی آخری آیت ، گزشتہ آیات میں کفار کے متعلق جوکچھ بیان ہوچکا ہے ، ان کی وضاحت اور تاکید کے طورپر ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کوتوبہ اور باز گشت کے راستے بتارہی ہے جوتو بہ کرنے کے لیے مائل ہوں ، ارشاد ہوتا ہے:بے شک جولوگ کافر ہوگئے اورانہوں نے لوگوں کو خدا کی را ہ سے روکا ، پھر کافر ہی مرگئے توخدا ان کوہرگز نہیں بخشنے گا (إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبیلِ اللَّہِ ثُمَّ ماتُوا وَ ہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَہُمْ ) ۔
کیونکہ موت کے ساتھ ہی توبہ کے در وازے بند ہوجا تے ہیں اوروہ اپنے کُفر اور دوسروں کی گمرا ہی کابوجھ اپنے کندھوں پراُٹھا کراس دُنیا سے سد ھاریں گے ، توپھر انہیں کیسے معاف کیا جاسکتا ہے ؟
تواس طرح ان آیات میں مجموعی طورپر تین قسم کے لوگوں کاتذ کرہ ہوا ہے، منا فقین کا، کفار کا اور مومنین کا اور ان میں سے ہر ایک کی صفات اورانجام کوعلیحدہ علیحدہ بیان کیاگیا ہے۔
ثواب ضائع ہونے کے اسباب :
قرآن کی مختلف آیات بشمول زیر تفسیر آیت میں جن حساس نکتوں کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے اور خبر دار کیا گیا ہے ان میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مومنین ہوشیار رہیں کہ ان کے اعمال بھی کفّار کے اعمال کی طرح اکارت نہ چلے جائیں ، بالفاظ دیگر خود عمل ایک علیٰحدہ بات ہے اوراس کی حفاظت ایک اور بات، اگرچہ عمل بھی ا ہم چیز ہے لیکن عمل کی حفاظت اس سے ا ہم تر ہے ، ایک وپاکیزہ ،صحیح وسالم اورمفید عمل وہی ہوتا ہے جوآغاز سے ہی صحیح و سالم اور بے عیب ہواور آ خری عمرتک اس کی حفاظت کی جائے ۔
جواسباب و عوامل انسان کے اعمال کوخطرے میں ڈال دیتے ہیں یا انہیں نیست ونابُودکردیتے ہیں ، بہت ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں ۔
۱۔ احسان جتانا اور تکلیف پہنچانا، جیساکہ قرآن فرماتا ہے :
یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاٴَذی کَالَّذی یُنْفِقُ مالَہُ رِئاء َ النَّاسِ وَ لا یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ‘ ‘
” اے ایمان دارو ! اپنے مال کے را ہ خدا میں خرچ کو احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کے ذ ریعے ضائع مت کرو ، اس شخص کے مانند جواپنے مال کولوگوں کے دکھا دے کے لیے خرچ کرتا ہے اورخدا اور یوم آخرت پرایمان نہیں رکھتا ( بقرہ / ۲۶۴) ۔
یہاں پر عمل ضائع ہونے کے دوعوامل بتائے گئے ہیں ، ایک منت جتانا اورتکلیف پہنچانا اور دوسر ے ریا کاری اور کفر میں ،پہلا عامل عمل کی انجام دہی کے بعد درپیش آ تا ہے اور دوسرا اس کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اورنیک اعمال کوآگ میںڈال دیتا ہے ۔
۲۔عجب اورخود پسند ی ایک اور عامل ہے جوآثارِعمل کو مٹا دینا ہے ،لہذاحدیث میں ہے :
” العجب یاٴ کل الحسنات کما تاٴکل النّارالحطب “۔
خودپسند ی نیکیوں کویُوں ختم کردیتی ہے ، جس طرح آگ ایندھن کو( ۱) ۔
۳۔حسد بھی نیکیوں کے ضائع ہونے کا ایک سبب ہے اور اس کے بارے میں بھی حدیث میں تقریباً وہی الفاظ استعمال ہُوئے ہیںجوعجب وکود پسندی کے بارے میں ہیں :
چنانچہ پیغمبر اسلام( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)فرماتے ہیں :
” ایّاکم والحسد فان الحسد یاٴ کل الحسنات کما تاٴ کل النّار الحطب “(۲) ۔
اصولی طورپر جس طرح اچھائیاں برائیوں کومٹا دیتی ہیں ۔
” ان الحسنات یذھبنالسیّاٴت “۔
اسی طرح کبھی کبھی برائیاں بھی اچھائیوں کوبالکل بے اثر بنادیتی ہیں ۔
۴۔مرتے دم تک ایمان پرقائم رہنابقا ئے عمل کی ا ہم ترین شرط ہے ،کیونکہ قرآن مجید صراحت کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ جولوگ بے ایمان ہوکر مرتے ہیں ان کے سارے کے سارے عمل اکارت جاتے ہیں (۳) ۔
اسی سے ہم اعمال کی حفاظت کے مسئلے کی ا ہمیّت اور مشکلات کا انداز ہ لگاتے ہیں،لہٰذایک حدیث میںحضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
الا بقاء علی العمل اشد من العمل ، قال وما الابقاء علی العمل ؟قال یصل الرجل بصلة و ینفق نفقة للہ وحدہ ولا شریک لہ ، فکتب لہ سرًّ،ثم یذ کرھافتمحی فتکتب لہ علا نیة ، ثم یذ کرھا فتمحٰ وتکتب لہ ریاء “۔
” اعمال کی حفاظت خوداعمال کی بجا آوری سے زیادہ سخت ہے ،راوی نے عرض کیا ، اعمال کی حفاظت سے کیا مرادہے ؟فرمایا ․: انسان کبھی بخشش کرتا ہے یارا ہ خدا میں چھپ کرخرچ کرتا ہے تواس کے نامہٴ اعمال میں ایک مخفی عمل لکھا جاتا ہے ،پھر کسی جگہ پراس کاتذکرہ کر تا ہے تومخفی نیکی کے بجائے ظا ہری نیکی لِکھ دی جاتی ہے پھر ایک اور جگہ پر اسے بیان کرتا ہے تونیکی مٹا کر ریا کاری لکھ دی جا تی ہے “ ( ۴) ۔
زیرتفسیرآیت مذکورہ تمام امور کی طرف ایک اجمالی اشارہ کرتے ہوئے فرماتی ہے :
” ولاتبطلوا اعمالکم “( ۵) ۔
۵۔اعمال کے ضائع ہونے کے بارے میں مزید تفصیل تفسیرنمونہ جلد دوم سورہ ٴ بقرہ کی ۲۱۷ ویں آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔تفسیر رُوح البیان ، جلد۸،صفحہ ۵۲۳۔
۲۔بحارالانوار ، جلد۷۳،صفحہ۲۵۵۔
۳۔سُورہ ٴزمرآیت ۶۵۔
۴۔کافی جلد۲ باب ریاء حدیث ۱۶۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma