منافقین اندازِ گفتگو سے پہچانے جاتے ہیں :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ا ن آیات میں بھی ایک اور بحث کے حوالے سے منافقین کی صفات اورعلامات کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ، اوراس بات پر خاص تاکید کی گئی ہے کہ یہ لوگ یہ تصوّر نہ کریں کہ ہمیشہ اپنے نفاق کورسُولِ خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اورمومنین سے چھپائے رکھیں گے اوراپنے آپ کوبہت بڑای رسوائی سے بچاتے رہیں گے ۔
سب سے پہلے فرمایاگیا ہے : کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے انہیں یہ خیال ہے کہ خدا ان کے شدیدکینوں کوظا ہر نہیں کرے گا (اٴَمْ حَسِبَ الَّذینَ فی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ اٴَنْ لَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ اٴَضْغانَہُمْ )(۱) ۔
” اضغان “ ” ضغن “(بروزن ” حرص “اور بر وزن ” عقد“)سخت اور شدید کینے کے معنی میںہے ۔
ان کے دل میںپیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور موٴ منین کے بارے میںزبردست کینہ تھا اورہر وقت اس بات کی انتظار میں تھے کہ کوئی موقع مِلے اوران پر کاری ضربیں لگا ئیں ،قرآن پاک انہیں متنبہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ یہ تصور نہ کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے حقیقی چہرے کو چھپا ئے رکھیں گے ۔
لہٰذابعد کی آیت میں فرمایاگیا ہے : اگرہم چا ہیں توانہیں تجھ کو دکھا بھی دیں تاکہ تواُن کوان کے چہرے مہرے سے پہچان لے (وَ لَوْ نَشاء ُ لَاٴَرَیْناکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسیما ہمْ ) ۔
ہم اُنکے چہروں پر ایسا نشان لگائیں گے جسے دیکھ کرآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ان کے نفاق سے آگاہ ہوجائیں گے اور ” راٴ ی العین “سے انہیں دیکھیں گے ۔
پھر فر مایاگیا ہے : اگر چہ تواب بھی انہیں ان کے اندازِگفتگو سے پہچان سکتا ہے (وَ لَتَعْرِفَنَّہُمْ فی لَحْنِ الْقَوْلِ) ۔
راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ ” لحن “کامعنی یہ ہے کہ لفظ کواپنے قواعد اوراصل طریقہ ٴ کار سے پھیر دیاجائے یا اصلی اعراب کی جگہ کوئی دوسرا اعراب دیاجائے یاصراحت سے ارشاد اور کنائے کی طرف لے جایا جائے ،زیرِتفسیر آیت میں اس سے تیسرامعنی مراد ہے ،یعنی دِل کے مریض منافقوں کواس طرح پہچانا جاسکتا ہے کہ وہ ایک صریح اور واضح معنی کوکنائے ، تکلیف وہ تعبیراور دل دکھانے کے انداز میں استعمال کرتے ہیں ۔
جہاں پرجہاد کی بات ہوتی ہے ، وہاں پروہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کے ارادے کمز ور اور ان کے حوصلے پست کردیں اور جہاں پرحق اور عدالت کی بات ہوتی ہے وہاں پروہ اسے دوسرے لفظوں میں پھیرلے جاتے ہیں اور جہاں پرنیک اور پاکیزہ اور اسلام کے پیش قدم لوگوں کاتذکرہ آ تا ہے تووہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیںعیب دار اورکم حیثیت بناکرپیش کریں ۔
لہذا ابوسعید خدری سے مروی ایک مشہور روایت میں ہے :
”لحن القول بغضھم علی بن ابی طالب ، وکنانعرف المنافقین علیٰ عھد رسُول اللہ ببغضھم علی بن ابی طالب “۔
” لحن القول“سے مراد علی بن ابی طالب کے ساتھ بغض ہے اور پیغمبر خدا کے زمانے میں منافق لوگوں کوہم علی بن ابی طالب کے ساتھ دشمنی سے پہچانا کرتے تھے ( ۲) ۔
جی ہاں منافقوں کی ایک واضح علامت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوںسے مومن اوّل اور اور اوّلین جانبازِ اسلام سے دشمنی کیاکرتے تھے ۔
اصولی طورپر یہ بات ممکن نہیں ہے کہ انسان کسِی چیز کودِل میں چھپائے رہے اِسے ایک طویل عرصے تک اس قدرمخفی رکھے کہ اشارات وکنایات اور ” لحن القول “میں بھی اسے ظا ہر نہ کرپائے ، اسی لیے توحضرت امیرالمو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :
” ما اضمراحد شیئاً الاّ ظھرافی فلتالسا نہ وصفحات وجھہ “۔
” کوئی شخص کسِی چیز کواپنے دل میں مخفی نہیں رکھتا مگر یہ کہ باتوں باتوں میں اس کے مُنہ سے غیر شعوری طورپر نکل جاتی ہے اوراس کے چہر ے پرآشکار ہوجاتی ہے ( 3) ۔
قرآ ن مجید کی دوسری آیات میں منافقین کی تکلیف وہ باتوں کوبیان کیاگیا ہے جواسی ” لحن القول “کامصداق ہیں ،یاپھران کی مشکوک حرکتوں کونقل کیاگیا ہے ، شاید اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ زیرِ تفسیر آیت کے نزُول کے بعد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)منافقین کوان کی علامتیںسے بخوبی پہچان لیا کرتے تھے ۔
اس بات کی واضح دلیل یہ چیزہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوحکم دیاگیا ہے کہ :
”وَ لا تُصَلِّ عَلی اٴَحَدٍ مِنْہُمْ ماتَ اٴَبَداً وَ لا تَقُمْ عَلی قَبْرِہِ“۔
” جب ان میں سے کوئی مر جائے تواس پرنماز نہ پڑھیں اوراس کی بخشش کے لیے دُعا کرنے کی خاطر کھڑے نہ ہوں “ ( توبہ ۸۴) ۔
جن موقعوںپرخاص طورپر منافقین اپنے حقیقی چہرے ظا ہر کیاکرتے تھے ایک جہاد کاموقع بھی تھا، جنگ سے قبل امداد کی جمع آوری کے وقت ، میدانِ جنگ میںدُشمن کے شدید حملوں کے موقع پر اورجنگ کے بعد تقسیم غنائم کے وقت،قرآن مجید بہت سی آیات میں خاص کرسُورہ ٴ احزاب کی آیتوں میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ایک عام مسلمان تک بھی انہیں ایسے موقع پرپہچان لیا کرتاتھا۔
آج کے دور میں بھی ” لحن القول “کے ذ ریعے اوران کے ا ہم اجتماعی مسائل خصوصابحرانوں اور جنگوں میںردّ عمل کی وجہ سے منافقین کی پہچان مشکل بات نہیں ہے اور ذ راساغور کرنے سے انہیں ان کی رفتار اور گفتار سے پہچاناجاسکتا ہے کیا، ہی بہترہوکہ مُسلمان بیدار ہوں اوراس آیت سے ہدایت لیتے ہُوئے اس خطر ناک اور کینہ پرور گروہ کوپہچانیں اوراسے الم تشرح کریں ۔
آیت کے آخر میں فرمایاگیا ہے : خدانے سب کے اعمال کوجانتا ہے ( وَ اللَّہُ یَعْلَمُ اٴَعْمالَکُم) ۔
بعد کی آیت میں مومنین اور منافقین میں تمیز اورپہچان کے ذ رائع پرزیادہ سے زیادہ تا کید کے طورپر فرمایاگیا ہے : اور ہم تم لوگوں کوضرور آزمائیں گے تاکہ معلوم ہوجائے کہ تم لوگوں میںصحیح معنوں میں مجا ہد اور صابرکون ہیں اورمجا ہد وں کی شکل کے سُست عناصر منافق کون ہیں ؟(وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّی نَعْلَمَ الْمُجا ہدینَ مِنْکُمْ وَ الصَّابِرینَ) ۔
اگرچہ اس آ ز مائش کامیدان وسیع اورعام ہے اور تمام فرائض کی ادائیگی کے موقع پرصبر وشکیبائی بھی اس میں شامل ہے ،لیکن ” مجا ہدین “ کے لفظ اور اوّل وآخر کی آیات کی مناسبت سے زیادہ ترمیدانِ جہادو جنگ میں آزمائش مراد ہے اور یہ ہے بھی حقیقت کہ میدان جہاد ایک عظیم اور سخت آز مائش کامقام ہوتا ہے اوروہاں پر بہت کم ہی کوئی شخص اپنے حقیقی چہرے کولوگوں کی نگاہوں سے چھپا سکتا ہے ۔
نیز اسی آیت کے ذیل میں فرمایاگیا ہے : تمہاری آ زمائش کے علاوہ ” ہم تمہاری خبروں کو بھی آزمائیں گے “ (وَ نَبْلُوَا اٴَخْبارَکُم) ۔
بہت سے مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں پر ” اخبار“ سے مراد انسانوں کے اعمال ہیں کیونکہ جب کوئی عمل انسان سے سرزد ہوتا ہے تووہ ” خبر“ کے مانند لوگوں میں نشر ہوجاتا ہے ،بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہاں پر ” اخبار “ سے مراد انسان کے اند رونی راز ہیں ، کیونکہ لوگوں کے اعمال ان اسرار کی خبر دیتے ہیں ۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں پر ” اخبار“ ان خبر وں کے معنی میں ہو کہ جولوگ اپنی کیفیت یامعا ہدایت کے متعلق دیتے ہیں ، مثلاً منافقین نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے معا ہدہ کیا ہٴوا تھاکہ میدان جنگ سے پیٹھ نہیں پھیر یں گے ، اور پھر انہوں نے اپنے اس معا ہد ے کو توڑ ڈالا ،چنانچہ سُورہ ٴ احزاب کی ۱۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔
” وَ لَقَدْ کانُوا عا ہدُوا اللَّہَ مِنْ قَبْلُ لا یُوَلُّونَ الْاٴَدْبارَ “
نیز ان میں سے کچھ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) س سے میدانِ جہاد سے پلٹ جانے کی اجازت مانگا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ ہمار ے گھر غیر محفوظ ہیں جب کہ وہ غیرمحفوظ نہیں تھے ، ان کا اصل مقصد میدان سے فر ار کرنا ہوتاتھا ، قرآنی الفاظ میں :
” وَ یَسْتَاٴْذِنُ فَریقٌ مِنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُولُونَ إِنَّ بُیُوتَنا عَوْرَةٌ وَ ما ہِیَ بِعَوْرَةٍ إِنْ یُریدُونَ إِلاَّ فِراراً “ (احزاب / ۱۳) ۔
تواس طرح سے خدا تعالیٰ انسانوں کے اعمال کوبھی آزماتا ہے اوران کی گفتار اور خبر وں کوبھی ۔
اس تفسیر کے مطابق زیرتفسیر آیت کے دونوں جُملوں کے دومختلف معانی ہیں جب کہ پہلی تفسیر کے مطابق یہ دونوں حِصّے ایک دوسرے کی تاکید کرتے ہیں ۔
بہرحال یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ خدا وند عالم لوگوں کوعلی الاعلان فرمارہا ہوکہ ہم تمہیں آ زمائیں گے تاکہ تمہاری صفیں ایک دوسرے سے نمایاں اور ممیز ہوجائیں اورحقیقی مومنین کوضعیف الاعتقاد اور منا فقین سے علیٰحدہ پہچاناجاسکے ، قرآن کی بہت سی آیات میں آز مائش وامتحان کے مسئلے کو بیان کیاگیا ہے ۔
ہم نے بھی پہلی جلدسُورہٴ بقرہ کی آیت ۵۵ کے ذیل میں خدا کی آز مائش کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے اسی طرح سُورہ عنکبوت کے آغاز میں بھی ( ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ جلد ۱اور جلد ۱۶ متعلقہ حِصّے) ۔
ساتھ ہی یہ بتا تے چلیں کہ ” “ ( تاکہ تم میں سے مجا ہدین کی شناخت ہوجائے ) کاجُملہ اس معنی میں نہیں ہے کہ خدا ان لوگوں سے واقف نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد خداکے علم کاخارج میں ظہور اورایسے افراد کونمایاں کرنا ہے ،یعنی اس طرح سے خارج میں بھی خداکا علم حقیقت کی صُورت اختیار کرلے اور حقیقی مجا ہدین کی صفیں بھی دوسر ے نام نہاد مجا ہدین سے علیٰحدہو جائیں گے ۔
۱۔بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں ” ام “ کو ” استفہامیہ “ سمجھا ہے اور بعض دوسرے مفسرین نے نے اسے ” منقطعہ “بمعنی ” بل “سمجھا ہے ،لیکن پہلامعنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
۲۔تفسیر مجمع البیان اسی آیت کے ضمن میں ،ساتھ ہی ہم بھی بتاتے چلیں کہ اس روایت کو اہل سُنت کے بہت سے بزرگوں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ، جن میں سے چند ایک علماء اوران کی کتابوں کے نام یہ ہیں ، احمد نے کتاب ” فضائل “ میں ، ابن عبدالبرنے ” استیعاب “میں ذہبی نے ” تاریخ اوّل الاسلام “ مین ، ابن اثیر نے ” جامع الاصُول “ میں علامہ گنجی نے ” کفایة الطالب “ میں محب الدین طبری نے ” ریاضالنضرہ “میں سیوطی نے ” درمنثور “ میں ، آلوسی نے ” رُو ح المعانی “میں اور دوسر ے بہت سے علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے درج کیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی مسلمہ روایات میں ہے کہ جوپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے منقُول ہے ( مزید تفصیل کے لیے ” احقاق الحق “جلد سوم،صفحہ ۱۱۰ ملاحظہ فر مایئے ) ۔
۳۔ نہج البلاغہ کلمات قصار ، جملہ ۲۶۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma