سورہ محمد (ص ) کے مضامین اور فضیلت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ سُورت مدینہ میں نازل ہوئی
اس کی ۳۸ آیتیں ہیں

سُور ہٴ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے مضامین

اس سُورت کی دوسری آیت میں چونکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانام مذکور ہوا ہے اس لیے اس کانام ” محمد “ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)رکھاگیا ہے اور اس کا دوسرا نام قتال بھی ہے واقعی یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کے ساتھ جنگ اورجہاد جونہایت ا ہم موضوع ہے اس سُورت پرسایہٴ فگن ہے جب کہ اس سُورت کی دوسری بہت سی آیات میں کفّار اور مومنین کے حالات اورصفات وخصوصیات کاتقابل کیاگیا ہے ، اسی طرح ان کے اُخروی انجام کوبیان کیاگیا ہے ،کلی طورپراس سُورت کے ذیل میں مضامین کوچند حصّوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔
۱۔ ایمان او ر کفُر کامسئلہ اوراس دُنیا میں اوراس جہان میں مومنین اور کفّار کے حالات کا تقابل۔
۲۔دشمنوں کے ساتھ جنگ اورجہاد کے مسئلے پرواضح اور تفصیلی بحث اور جنگی قیدیوں کے متعلق حکم ۔
۳۔اس کا ایک بڑا حِصّہ منافقین کے حالات کی تشریح کرتا ہے ، جوان آیات کے نزُول کے وقت مدینہ میں تخر یبی سر گرمیوں میں مصروف تھے ۔
۴۔ایک اورحِصّے میں ” زمین کی سیر“ اور گزشتہ اقوام کے انجام کے سلسلے میں تحقیق کی بات کی گئی ہے اوران کے انجام سے درسِ عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔
۵۔کچھ آیات میںجنگ کے مسئلے کی مناسبت سے الہٰی امتحان کاتذ کرہ ہے ۔
۶۔ایک اورحِصّہ میں ” انفاق “ (را ہ خدا میں خرچ کرنے ) کی بات کی گئی ہے جوبذات ِ خود جہاد کی ایک قسم ہے اور اس کا نُقطہٴ مقابل ”بخل “ ہے اس کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی ہے ۔
۷۔سُورت کی بعض آیات میں اسی مناسبت سے کفار کے ساتھ صُلح (جوشکست اورذلت کاموجب بنے ) کی بات کی گئی ہے اوراس قسم کی صلح سے روکاگیا ہے ۔
مجمُو عی طورپر اس سُورت میں جس اصل مسئلے پرزیادہ زور دیاگیا ہے وہ جنگ کامسئلہ ہے اور باقی مسائل اسی محور کے گرد گھومنتے ہیں،کیونکہ یہ سورة مدینہ میں اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کی دشمنان ِ اسلام کے ساتھ جنگ زوروںپر تھی اور بعض مفسرین نے بقول جنگِ اُحد کے دوران یا اس کے بہت تھوڑ ے عرصے بعد نازل ہوئی ، ایسی جنگ جوتقدیر ساز اور مومنین کو کفار اور منافقین کی صفوف سے جدا کردینے والی ہو، ایسی جنگ جواسلام کی بنیاد وں کومحکم کردے اوران دشمنانِ اسلام کوسبق سیکھائے جواسلام اور مسلمانوں کی نابودی کا ارادہ رکھتے ہوں۔

سُورہٴ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کی فضیلت

پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشادِ گرامی ہے :
” من قراٴ سُورة محمد کان حقاعلی اللہ ان یسقیہ من انھارالجنّة “۔
” جوشخص سُورہ محمد کی تلاوت کرے گا، خدا پرحق بن جاتا ہے کہ اسے بہشت کی نہروںسے سیراب کرے ( ۱) ۔
کتاب ” ثواب الاعمال“میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے بھی ایک حدیث نقل کی گئی جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا ہے :
” من قراٴ سورة الّذین کفرو ا (سورہ محمد )لم یرتب ابداً ، ولم ید خلہ شک فی دینہ ابداً ،ولم یبتلہ اللہ بفقرابدً ،ولا خوف سلطان ابداً ،ولم یز ل محفوظاً من الشرک والکفر ابداً حتّٰی یموت ، فاذامات وکلّہ اللہ بہ فی قبرہ الف ملک یصلون فی قبرہ ویکون ثواب صلاتھم لہ ویشیعونہ حتّٰی یوقفوہ موقف الا من عنداللہ عزّو جلّ ویکون فی امان اللہ وامان محمّد “۔
” جوشخص سُورہ ٴ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاو ت کرے ، کبھی بھی شک وشبہ اس کے دین میںداخل نہیں ہوگا اورخدا اسے کبھی دین کے فقر میں مبتلا نہیں کرے گا اوراسے ہرگز بادشا ہ کاخوف لاحق نہیں ہوگ اور آخر عمرتک شرک وکفر سے محفوظ اورامان میں ہوگا اور جب مرے گاتوخدا ایک ہزار فرشتوںحکم دے گا کہ اس کی قبرمیں جاکرنماز اداکریں اوراس نماز کاثواب اس مرنے والے کو ملے گا اور یہ ہزار فرشتے محشر تک اس کے ساتھ رہیں گے اورعرصہ محشرمیں اسے امن وامان کے مقام پر لے جاکرکھڑاکریں گے اوروہ ہمیشہ اللہ اورمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امان میں رہے گا (۲) ۔
ظا ہرسی بات ہے کہ جولوگ ان آیات کے مندرجات کواپنی ذات پر نافذ کریں گے اور سخت ،بے رحم اور منطق دشمن کے ساتھ برسرِ پیکارہوںگے توان کے دل میں نہ تو کسی قسم کاشک وشبہ پیدا ہوگا اورنہ ہی ارادہ میں لغزش ایک توان کے دین کی بنیاد یں مستحکم ہوں گی اور دوسرے خوف ،ذّلت اور تنگ دستی کاخاتمہ ہوگا اور ساتھ ہی قیامت میں رحمت ِالہٰی کے جوار میں نعمتوںسے بہرہ ور ہوں گے ۔
ایک اورحدیث میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
” من ارادان یعرف حالنا وحال اعدائنافلیقرء سورة محمد فانہ یراھا اٰ یة فینا واٰیة فیھم “۔
” جوہمارے اورہمار ے دشمنوں کے حال کودیکھنا چا ہیے اسے سورہٴ محمّد کی تلاوت کرناچا ہیئے کیونکہ اس کی ایک آیت ہمارے حق میں اور ایک آیت ہمارے دشمن کے بارے میں ہے “ (۳) ۔
اس حدیث کو” اہل سنت کے مفسر آلوسی نے رُوح المعانی ( ۴) اورسیوطی نے درمنثور میں بھی نقل کیا ہے (۵) ۔
یہ حدیث اس حقیقت کوبیان کرتی ہے کہ ایمان کاکامل نمونہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام اور کفر ونفاق کامجسم نمونہ بنی امیّہ ہیں ․ یہ ٹھیک ہے کہ سورة میں اہل بیت علیہ السلام کے نام سے تصریح نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی نبی امیّہ کانا م لیاگیا ہے لیکن چونکہ موٴمن میں منافق گروہوں کے بارے میں اوران کی خصوصیات کے سلسلے میں بحث کی گئی ہے،لہٰذا سب سے پہلے ان دوواضح مصداقوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، البتہ تمام مومنین اور تمام منافقین پراس کے صادق آنے میں کوئی مانع نہیں ہے ۔
۱۔تفسیرمجمع البیان جلد۹،سورہ ٴ محمد کا آغاز ۔
۲۔تفسیر نورالثقلین ، جلد۵،صفحہ ۳۵ ،بحوالہ ثواب الاعمال۔
۳۔ مجمع البیان جلد۹، اسی سُورت کا آغاز ۔
۴۔ تفسیرروح المعانی جلد ۲۶،صفحہ ۳۳۔
۵۔تفسیردرمنثور جلد۶،صفحہ ۴۶۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma