شان نزُول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ان آیات کی شان نزول میں مختلف روایات ذکرہوئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے :

حضرت رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مکّہ سے طائف کے بازار عکاظ میں تشریف لے گئے ،زیدبن حارثہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرا ہ تھے ، اس سفر کامقصد یہ تھاکہ لوگوں کواسلام کی دعوت دی جائے ،لیکن کسی نے بھی آپ کی دعوت قبول نہ کی ، ناچار مکّہ کی طرف واپس آ ئے ،دورانِ سفرایسی جگہ پہنچے جِسے ” وادی ٴ جن “ کہاجاتاتھا ،رات کے دوران آ پ نے قرآن مجید کی تلاوت فرمائی ، وہاں سے کچھ جنّات کاگزر ہوا ، جب تلاوت کلام اللہ کی آواز ان کے کانوں میںپہنچی تواسے غور سے سننے لگے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ” خاموش رہو “ جب آپ نے تلاوت مکمل کرلی تووہ مسلمان ہوگئے اور مبلغ کی حیثیت سے اپنی قو م کی طرف لوٹ آئے اوراسلام لانے کی دعوت دی ، ان میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے اور مبلغین کے ہمرا ہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہُوئے ، آپ نے انہیں اسلام کی تعلیمات یادکروائیں، اسی موقعہ پرمندرجہ بالا آیات اور سُورہ ٴ جن نازل ہوئی (۱) ۔
کچھ اورلوگوں نے ایک اور شان نزُول ابن عباس سے نقل کی ہے جوگزشتہ شان ِ نزُول سے مِلتی جُلتی ہے ، البتہ فرق یہ ہے کہ اس کے مطابق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نماز پڑھ رہے تھے اور نماز کے دوران قرآن مجید کی تلاوت فررہے تھے کہ جنّات کے ایک گروہ کاوہاں سے گزر ہوا ، جوتحقیق اورجستجوکررہے تھے اورآسمان سے خبروں کے منقطع ہوجانے نے انہیں پریشان کررکھاتھا ، جب انہوں نے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو کہنے لگے کہ ہم سے آ سمانی خبروں کے انقطاع کا سبب بھی یہی چیز ہے ، یہیں سے وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور جاکر اسے اسلام کی دعوت دی ۔
مرحوم طبرسی نے تفسیر مجمع البیان میں ایک تیسری شان ِ نزُول بیان کی ہے ( ۲ ) جس کی داستان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر طائف سے مربوط ہے اور اس کاخلاصہ یہ ہے کہ :
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد پیغمبر اکرم کے لیے سخت مشکلات کادور شروع ہوگیا اورآپ نے طائف کاسفر اختیار کیا شاید وہاں پر کوئی دوست مددگار مِل جائے لیکن طائف کے سر داروں نے آپ کی زبردست تکذیب کی اورآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کواس قدر پتھر مارے کہ آپ کے پاؤں مبارک سے خون بہنے لگا، آپ تھک کراورزخموں سے چُور ایک باغ کے پاس پہنچے اوروہاں ایک کھجورکے درخت کے سائےے کے نیچے بیٹھ گئے ،خون آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں سے جاری تھا ۔
یہ عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کاباغ تھا جوقریش کے دودولتمندافراد تھے ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے جب انہیں دیکھا توسخت پریشان ہوگئے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ان کی دشمنی سے پہلے ہی باخبرتھے ۔
ان دونوں نے انگور وں کا ایک تھال بھرکر اپنے عیسائی غلام ” عداس “ کے ذ ریعے آپ کی خدمت میں بھیج دیا ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس سے پوچھا :تم کہاں کے را ہنے والے ہو ؟
اس نے کہا:تینوا کا ۔
فرمایا : خدا کے صالح بندے یونس علیہ السلام کے شہر کے ۔
عداس نے پوچھا : آپ یونس علیہ السلام کوکہاں سے پہچانتے ہیں ؟
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا : میں خداکارسول ہوں اور خدا ہی نے مجھے بتایا ہے ۔
یہ سُن کرعداس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقا نیّت کوتسلیم کرلیا، خدا کے حضور سجدہ کیا اور آپ کے قدموں کے بوسے لیے ۔
جب وہ واپس لوٹ گیا تو عتبہ اور شیبہ نے اسے زبردست سرزنش کی کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟
اس نے کہا: تویہ خداکے صالح بندے ہیں ، انہوں نے مجھے اس پردیس اوراجنبی ماحول میں ہمارے پیغمبر یُونس کے بارے میں بتایا ہے ۔
وہ یہ سُن کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے :کہیں ایسانہ ہو کہ تمہیں وہ تمہار ے دین عیسائیت کے بارے میں دھو کا دے ،کیونکہ وہ توایک دھو کا باز انسان ہے (نعوذ باللہ ) ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مکّہ کی جانب واپس آگئے ،( اس سفرکاماحصل صرف ایک موٴ من شخص تھا )راستے میں نصف شب کے قریب کھجور کے ایک درخت کے نزدیک پہنچے اورنماڑ پڑھناشرو ع کردی ، وہیں سے ” نصیبین“ یا ” یمن “ کے جنات کے ایک ٹولے کاگزر ہوا ، آپ نمازِ صبح پڑھ رہے تھے ، انہوں نے نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی آواز پرکان لگائے اورایمان لے آئے ( ۳) ۔
۱۔تفسیر نورالثقلین، جلد۵، صفحہ ۱۹ ، میں تفسیرعلی بن ابرا ہیم سے نقل کیاگیا ہے ،(کچھ تلخیص کے ساتھ ) ۔
۲۔ یہ روایت ہم نے خلاصہ کے ساتھ بیان کی ہے اورصحیح بخاری ، صحیح مسلم ، اورمسند امام احمد میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ے ( ” ظلال القرآن “ جلد۷ ،صفحہ ۴۲۹) ۔
۳۔مجمع البیان جلد ۹، ص ۹۲ ، اس داستان کوابن ہشام نے اپنی کتاب ” السیرة النبوة النبویہ “ میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ تحریر کیا ہے ( جلد۲،صفحہ ۶۳) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma