کامیابی کی دوشر طیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ آیات بھی حسبِ سابق کفار کے اعمال وگفتار اوران گمرا ا ہی کو زیر ِ بحث لاکران کی نکوہش کررہی ہیں ، پہلے توا ن کی غر ور آمیز کسِی منطق سے عاری گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرمایا گیا ہے : اور کا فرلوگوں نے مومنوں کے بارے میں کہا ہے کہ اگر ایمان اوراسلام کوئی اچھی ہوتے ہوتے یہ لوگ اس کی طرف ہم سے ہرگز سبقت حاصل نہ کرجاتے (وَ قالَ الَّذینَ کَفَرُوا لِلَّذینَ آمَنُوا لَوْ کانَ خَیْراً ما سَبَقُونا إِلَیْہِ )(۱) ۔
یہ مٹھی بھر لوگ یاتو فقیروبے بضاعت ہیں یاپھر دیہاتی ،غلام اوراُجڈ اور یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ وہ حق کوسمجھ جائیں اوراس کی طرف متوجہ ہوجائیں اورہم جوکہ اس معاشر ے کے چشم و چراغ ہیں اس بات سے غافل اور بے خبر رہ جائیں۔
لیکن وہ اس بات سے غافل تھے کہ عیب تو دراصل خود انہیں میں پایاجاتا ہے کہ دین ِ اسلام میں ، اگر ان کے دلوں پر تکبّر اورغرور کے پردے پڑے ہوتے ، اگروہ مال ودولت ، جا ہ ومنزلت مقام ومنصب اور شہوات وخوا ہشات میں مست اور مگن نہ ہوتے ، اگرخود پسندی اور خو د نمائی انہیں تحقیق حق کی اجازت دیتی اور غریبوں کی طرح وہ بھی صاف دِل حق خو اورحق طلب ہو تے تو یقیناوہ بھی بہت جلد اسلام کے حلقہ بدامان ہو جاتے ۔
لہذا آیت کے آخر میں اس لطیف پیرائے میں انہیں جواب دیاگیا ہے : چونکہ وہ خود قرآن کے ذ ریعے ہدایت نہیں پاتے توبڑ ی جلد ی کہہ دیتے ہیں کہ یہ توایک برانا جُھوٹ ہے (وَ إِذْ لَمْ یَہْتَدُوا بِہِ فَسَیَقُولُونَ ہذا إِفْکٌ قَدیمٌ )( ۲) ۔
لیکن پہلا احتمال آیت کے معنی سے بہت ہم آہنگ ہے ۔
یعنی انہوں نے خود قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کی ورنہ قرآن میں توہدایت کی قسم کی کمی نہیں ہے ۔
” افک قدیم “کی تعبیر اس تہمت کے مانند ہے جوان کی زبانی قرآنی آیات میں نقل ہوئی ہے کہ وہ کہتے تھے ” اساطیر الا وّلین “(گزشتہ لوگوں کے افسانے )( فرقان / ۵) ۔
نیز ” سیقولون “کی تعبیر فعل مضارع کی صورت میں، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہمیشہ یہ تہمت قرآن پر لگاتے رہتے تھے اور اس تہمت کواپنے ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ قرار دیتے تھے ۔
پھر ایک اور دلیل کو بیان کیاجارہا ہے جوقرآن کی حقانیت کے ثبوت اور مشرکین کی اس تہمت کی نفی کے لیے ہے، جووہ کہتے تھے کہ یہ ایک قدیمی جھُوٹ ہے ، ارشاد ہوتا ہے :اس عظیم کتاب کی صداقت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے مُوسیٰ کی وہ کتاب خدا کی طر ف سے نازل ہوئی ہے جولوگوں کی پیشوا اوررحمت تھی اوراس نے اپنے بعد کے انبیاء کی اوصاف کو بیان کیا ہے ، اوریہ قرآن ایسی کتاب ہے جو تورات میں مذ کور نشا نیوں سے ہم آہنگ ہے (وَ مِنْ قَبْلِہِ کِتابُ مُوسی إِماماً وَ رَحْمَةً وَ ہذا کِتابٌ مُصَدِّقٌ ) ۔
تو پھر تم یہ کیسے کہتے ہوکہ یہ ایک قدیمی جُھوٹ ہے ؟
قرآن میں کئی بار اس بات کو زور دے کر بیان کیاگیا ہے کہ قرآن تورات اورانجیل کی تصدیق کرتا ہے ، یعنی ان نشا نیوں سے ہم آہنگ ہے جوان د و آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اوران کی آسمانی کتاب کے بارے میں بیان ہوئی ہیں اور یہ نشانیاں اس حد تک اپنے معیار پرپوری اتری ہیں کہ قرآن نے بھی ( بقرہ / ۱۴۶ میں )ارشاد فر مایا ہے ۔
” الَّذینَ آتَیْنا ہمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَہُ کَما یَعْرِفُونَ اٴَبْناء َہُمْ“ ۔
” اہل کتاب اسے اس حد تک بخوبی پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کوپہچا نتے ہیں “ ۔
زیر تفسیر آیت سے ملتی جُلتی ایک اور آیت ہے جوسُورہ ٴ ہود میں ہے ۔
” اٴَ فَمَنْ کانَ عَلی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہِ وَ یَتْلُوہُ شا ہدٌ مِنْہُ وَ مِنْ قَبْلِہِ کِتابُ مُوسی إِماماً وَ رَحْمَةً اٴُولئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ “ ۔
” آیا جوشخص اپنے پروردگار کی واضح دلیل رکھتا ہو اوراس کے پیچھے پیچھے اس کی طرف سے ایک گواہ بھی آ ئے اوراس سے پہلے مُوسٰی کی کتاب جوپیشوا اور رحمت ہے ، اس پر گواہی دے رہی ہو وہ ایسے شخص کے مانند ہوسکتا ہے جواس طرح کا نہ ہو ؟( ھود / ۱۷) ۔
” إِماماً وَ رَحْمَة“ کی تعبیر ممکن ہے اس لیے ہو کہ اما م ورپیشو ا کے ذکر کے بعد کبھی کبھار ذہن میں فرض کی بجا آوری کامسئلہ تکلیف وہ اورمشکل نظر آ تا ہے ،لیکن ” رحمت “ کاذکر اس تصوّر کی اصلاح کرتے ہُوئے کہتا ہے کہ اس امام کی امامت کے ساتھ رحمت بھی ہے ، حتی کہ اگر اس امام نے کسی فریضے کی بجا آ وری کاحکم بھی دیا ہے تو بھی رحمت ہے ور نفوس کی تربیّت سے بڑھ کراور کیارحمت ہوسکتی ہے ؟
اس کے فوراً بعد فر مایاگیا ہے ” یہ اس حالت میں ہے کہ یہ آسمانی کتاب فصیح اور واضح عربی زبان میں ہے “ جس سے تمام لوگ بہرہ درہوتے ہیں ( لِساناً عَرَبِیًّا) ۔
آیت کے آخر میں نزول قرآن کے آخری مقصد کودو مختصر سے جملوں میں اس طرح واضح کرتا ہے : مقصد یہ ہے کہ ظالموں کو ڈ رائے اور نیکو کاروں کوخوشخبری دے ( لِیُنْذِرَ الَّذینَ ظَلَمُوا وَ بُشْری لِلْمُحْسِنین) ۔
چونکہ ” ینذ ر “ فعل مضارع ہے اور استمرار پردلالت کرتا ہے ، لہذا اس بات کوواضح کرر ہا ہے کہ قرآن کاڈ رانا بھی اِسکی بشارت وخوشخبری کے مانند دائمی اورہمیشہ کے لیے ہے ، تاریخ کے ہر دور انئے میں ظالموں اورستم گاروں کوڈ راتاچلا آ رہا ہے اور نیک لوگوں کوخوشخبری سناتا آرہا ہے ۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ” ظالموں“ کے مدّ مقابل ” نیکو کاروں “ کوقر ار دیا ہے ہے ،کیونکہ یہاں پر ” ظلم “ کے وسیع معنی مُراد ہیں جوہر قسم کی بُرائی اور خلاف کاری پر محیط ہیں اور ظا ہر ہے کہ دوسروں پر ظلم اوراپنے نفس پرظلم اس میںداخل ہیں ۔
بعد کی آیت درحقیقت ” محسنین “ (نیکو کاروں ) کی تفسیر ہے جوگزشتہ آیت میں مذ کور ہے ، ارشاد ہوتا ہے :جنہوں نے کہا ہماراپروردگار اللہ ہے وہ اس پر قائم رہے تو نہ ان ان کوکچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (إِنَّ الَّذینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لا ہُمْ یَحْزَنُونَ) ۔
درحقیقت ایمان کے تمام مراتب اورہر قسم کے اعمال صالحہ ان دوجمُلوں میں یکجا بیان ہُوئے ہیں کیونکہ ” توحید “ تمام صحیح اعتقا دیت کی بنیاد ہے تمام اصولِ عقائد کامرجع توحید ہے ․ اور ” استقامت “ وصبر وشکیبائی تمام اعمالِ صالح کی بنیاد ہے ، کیونکہ تمام اعمال کاخلاصہ ان تین قسم کے صبر میں ہے : اطاعت پرصبر ، معصیت پرصبر اور مصیبت پر صبر۔
بنابریں ” محسنین “وہ لوگ ہیںجو اعتقادی لحاظ سے ” توحید “ کے راستے پراور عملی لحاظ سے ” صبر و استقامت “ کی بنیاد وں پر قائم ہیں ۔
ظا ہر ہے کہ اس قسم کے افرد کونہ تو آ ئندہ کے حوادث کاڈ ر ہے اور نہ ہی وہ گز شتہ سے خائف ہیں ۔
اس سے ملتا جُلتا مفہومسورہٴ حم سجدہ کی ۳۰ ویں آیت میں ( زیادہ تفصیل سے ) بیان ہوا ہے ،وہ یُوں کہ :
”إِنَّ الَّذینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلائِکَةُ اٴَلاَّ تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ اٴَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ‘۔
اس آیت میں دواضافی چیزوں کاتذکرہ ہے: ایک تویہ کہ انہیںفرشتوں کوطرف سے یہ خوشخبر ی دی جاتی ہے کہ ان پر نہ توکسی قسم کاخوف ہے اور نہ ہی حُزن زیرتفسیر آیت اس بارے میںخاموش ہے اور دوسرے یہ کہ خوف وحزن کی نفی کے ساتھ ساتھ انہیں بہشت موعود کی بھی خوشخبری دی گئی ہے ، جب کہ زیرتفسیر آیت میں اس بات کی طرف اشارہ نہیں ، بلکہ اس کے بعد کی آیت میں اس قسم کا اشارہ مِلتا ہے ۔
بہرصورت یہ دونوں آیات ایک ہی مطلب کو بیان کر رہی ہیں ، ایک میں اجمال ہے اور دوسری میں تفصیل ۔
علی بن ابرا ہیم کی تفسیر میں” إِنَّ الَّذینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا “کے جُملے کی تفسیر میں یوں کہاگیا ہے کہ ” اسْتَقامُوا علی ولایة علی امیر ا لموٴ منین “ یعنی استقامت سے مراد علی ﷼ ابنی ابی طالب کی ولایت پراستقامت ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ علم وعمل اور عدالت وتقویٰ اپنانے میں امیر المومنین علیہ السلام کی پیروی خاص کرتاریک اور ظلماتی دور میں نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے جواستقامت و پائیداری کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ہے ، اسی لیے یہ زیر تفسیر آیت میں اس کے روشن مصداقوں میںسے ایک ہے نہ یہ کہ آیت کامفہوم منحصر اسی میں ہے ، جہاد اور اطاعت ِ پروردگار میں صبر نیزخوا ہشات نفسانی اور شیطان کی چالوں کے مقابلے میں ہر طرح کی پائید اری اس کے مفہوم میںشامل ہے ۔
” استقامت “ کے سلسلے میںسورہٴ حٰم سجدہ کی تیسویں آیت کی تفسیر میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں “۔
(ملاحظہ ہوتفسیر نمونہ جلد ۲۰) ۔
اس سِلسلے کی آخری آیت میں توحید پرست نیکو کار وں کا ا ہم ترین بشارت دیتے ہُوئے ارشاد فرمایا گیا ہے : وہی تواہل جنّت ہیں کہ جواس میں ہمیشہ رہیں گے (اٴُولئِکَ اٴَصْحابُ الْجَنَّةِ خالِدینَ فیہا ) ۔
یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ انجام دیتے رہے (جَزاء ً بِما کانُوا یَعْمَلُونَ) ۔
جیساکہ بعض مفسرین نے نتیجہ نکالا ہے کہ آیت کاظا ہری معنی حصر کامفہوم بتارہا ہے یعنی صرف اہل بہشت ہیںجوتوحید اوراستقامت کی را ہوں پر گامزن ہیں ، فطری امر ہے کہ دوسرے لوگ جو گنا ہوںسے آلودہ ہیں اگرچہ اپنے ایمان کی بدولت انجام کار بہشت میں جائیں گے ،لیکن ابتدائی طورپر ” اصحا الجنة “نہیں ہیں ۔
” اصحاب “ (ساتھی ) کی تعبیر بہشتی نعمتوںسے ان کی ہمیشہ کی ہم تشینی کی طرف اشارہ ہے ۔
”جَزاء ً بِما کانُوا یَعْمَلُون “ کی تعبیر ایک طرف تواس بات کی دلیل ہے کہ بہشت قیمت کے بدلے میں ملتی ہے ،حیلو ں بہانوںسے نہیں اور دوسر ی طرف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصولی طورپر انسان آ زاد اور خود مختار ہے ۔
۱۔ ” لِلّذین اٰمنو ا“ میں ” لام “ کاکیامعنی ہے ؟اس بارے میں مفسر ین کے کئے اقوال ہین ، لیکن سب سے مناسب یہی قول ہے کہ ” لام “ یہاں ” فی ‘ ‘ کے معنی میں ہے ، اسی لیے آیت کے اس جُملے کامعنی یُوں ہوگا ” کفار نے مومنین کے بارے میں یوں کہا ․․․ “ اور ” سبقونا “ میں فعل کے غائب ہونے کی وجہ سے بھی کوئی مشکل پیش نہیں آ ئے گی ، جبکہ بعض نے اسے ” لام تعلیل “سمجھا ہے اور بعض کے نزدیک ” الذ ین اٰمنوُا “ یہاں پر مخاطب ہیں اور ” سبقونا “” سبقتمون “کے معنی میں ہے ۔
۲۔اس آیت میں ” اذ “ ظر فیت کے لیے ہے اور بعض مفسرین اسے ” فسیقو لون “ سے متعلق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” فا“ وجود مانع نہیں ہے ، جبکہ بعض دوسرے مفسرین جیسے زمخشری ،تفسیر کشاف میں اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کے بعد کافعل ماضی ہے اور ” فسیقو لون “ فعل مضارع ہے ، لہٰذایہ اس کا متعلق نہیں بن سکتا ، بلکہ کسی محذوف سے متعلق ہے،جس کی تقدیر یوں ہے :” واذا لم یھتدوابہ ظھرعناھم “ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma