بنی اسرائیل کی نا شکر ی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گذشتہ آیات میں خداند ِ عالم کی مختلف نعمتوں ،شکر گزاری اوراعمال ِ صالح سے متعلق گفتگو ہورہی تھی ،اِن آ یا ت میں ان گذشتہ اقوام کاتذکرہ ہے جن کوخدا کی نعمتیں ملیں ، انہوں نے ان کی قد ردانی نہیں کی ۔
ارشاد ہوتاہے : ہم نے بنی اسرائیل کوآسمانی کتاب ، حکومت اور نبّوت عطا کی اورانہیں پاکیزہ رزق دیااور انہیں (اپنے ) زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلف عطاکی (وَ لَقَدْ آتَیْنا بَنی إِسْرائیلَ الْکِتابَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّةَ وَ رَزَقْناہُمْ مِنَ الطَّیِّباتِ وَ فَضَّلْناہُمْ عَلَی الْعالَمین) ۔
اس آ یت میں ان پانچ نعمتوں کا تذکرہ ہے جوخدا ندِ عالم بنی اسرائیل کو عطا کی تھیں ، بعد میںذکر ہونے والی نعمت کو ملا کر یہ چھ عظیم نعمتیں بن جاتی ہیں ۔
سب سے پہلی نعمت توآسمانی کتاب یعنی تورات ہے جودینی معارف ، حلال وحرام اور ہدایت و سعادت کی راہیں بیان کرتی تھی ۔
دوسر ی نعمت حکومت اورمنصب ہے ،کیونکہ ہم جانتے ہیں بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک نہایت ہی طاقت ور اور وسیع وعریض حکومت کے مالک رہے ہیں ، نہ صرف حضرت داؤد اور سلیمان علیہمالسلام منصب حکومت پرفائز رہے ہیں ، بلکہ بنی ا سرائیل کے دوسر ے بہت سے افراد بھی اپنے دور کے طاقت ور حکمران رہے ہیں ۔
قرآنی تعبیر میں” عام طورپر فیصلہ کرنے کو کہتے ہیں ،لیکن چونکہ عدل وانصاف کامحکمہ ہمیشہ حکومت ہی کا ایک اہم حِصّہ ہوتاہے اورحکومت کی امداد اور طاقت کے بغیر ” قاضی “ کے فیصلوں کی کوئی اہمیّت نہیں ہوتی لہذا التزامی دلالت کے طورپر اس کا اطلاق حکرانی پر بھی ہوتاہے ۔
تورات کے بارے میں سُورہ ٴ مائدہ کی ۲۴ ویں آ یت میں ہے کہ :
”یحکم بھا النبیون الذین اسلموا “
” جوانبیاء حکم خدا کے سامنے سرجھکا چکے تھے وہ تورات ہی کے ذریعے لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے تھے “‘۔
ان پر خداکی طر ف سے تیسرے نعمت ” نبّوت “ کی تھی ، کیونکہ خداوند عالم نے بنی اسرائیل میں سے بہت انبیاء منتخب کئے تھے . چنانچہ ایک روایت میں ہے :
بنی اسرائیل میں سے برگز یدہ انبیاء کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی ( ۱) ۔
ایک اورروایت میں ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء کی تعداد چار ہزار افراد تھی ( ۲) ۔
یہ سب ان پر خدا کی نعمتیں تھیں ۔
چھوتھے مرحلے پر مادی نعمتوں کاتذ کرہ ہوتاہے ، نہایت ہی جامع اورنانع تذ کرہ ، ارشاد ہوتاہے : ہم نے انہیں پاک وپاکیزہ روزی عطافر مائی (وَ رَزَقْناہُمْ مِنَ الطَّیِّبات) ۔
پانچویں نعمت بلاشرک غیرے فضیلت و برتری اورقدرت وطاقت تھی ، جیساکہ اسی آ یت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیاہے : اورانہیں اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی (ِ وَ فَضَّلْناہُمْ عَلَی الْعالَمینَ) ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ یہاں پر ” عالمین “ سے مراد زمانے ہی کے لوگ ہیں ،کیونکہ سورہٴ آل عمران کی ، ۱۱۰ ویں آ یت کہتی ہے :
”کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاس “
” تم مسلمان ایک بہترین امت تھے ،جنہوں نے انسانوں کے فائدہ کے لیے عالم وجُود میںقدم رکھا “۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت رسالت مآب محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الانبیاء ہیں اسی طرح آپ کی اُمّت بھی افضل ترین امت ہوں گی ، جیساکہ سُورہٴ نحل کی ۸۹ ویں آ یت میں ہے :
” وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فی کُلِّ اٴُمَّةٍ شَہیداً عَلَیْہِمْ مِنْ اٴَنْفُسِہِمْ وَ جِئْنا بِکَ شَہیداً عَلی ہؤُلاء “
” اس دن کا سوچیےٴ جب ہم ہراُمت میں سے ایک گواہ خُود انہی میں سے معبُود کریں گے اورآپ کوان سب پر گواہ ٹھہرائیں گے “ ۔
بعد کی آیت میں خدا وندعالم اس چھٹی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فر ماتاہے جواس قدر نا شناس قوم کوعطاکی گئی ، فر ما تاہے : اور ہم نے ان کو نبّوت اور شریعت کے روشن دلائل عطاکئے (وَ آتَیْناہُمْ بَیِّناتٍ مِنَ الْاٴَمْر) ۔
ممکن ہے ” بینات “ سے ان روشن معجزات کی طرف اشارہ ہو جوخدا و ندِ عالم نے جناب مُوسیٰ بن عمران اور بنی اسرائیل کے دوسرے انبیاء کوعطا فر مائے ، یاپھرمنطقی اور آشکار دلائل و براہین ،قوا نین اورمحکم اورپختہ احکام کی طرف اشارہ ہو ۔
بعض مفسرین کااحتمال ہے کہ یہ تعبیران روشن علامات و آیات کی طرف اشارہ ہے جو خدا وند ِ عالم پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم ) کے بارے میں انہیں عطا کی تھیں کہ جن کے ذ ریعے وہ پیغمبر خاتم الانبیاء علیہماالسلام کو اپنی اولاد کی طرح پہچان سکتے تھے ، جیساکہ سُورہٴ بقرہ میں ارشاد ہوتاہے :
”الَّذینَ آتَیْناہُمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَہُ کَما یَعْرِفُونَ اٴَبْناء َہُمْ “
” جنہیں ہم نے کتاب عطا کی وہ اُسے (رسول اسلام کو) یوں پہچانتے ہیں جیسے اولاد کو پہچانتے ہیں “ ( بقرہ ۔ ۱۴۶) ۔
لیکن اگریہ تمام معانی آ یت میں جمع کرلیے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
بہرحال ان تمام عظیم نعمتوں اورروشن دلیلوں کے ہوتے ہوئے اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی ، لیکن ان ناشکروں نے بہت جلد آپس میں اختلاف کھڑے کردیئے ،جیساکہ اسی آ یت کے ضمن میں قرآن فرماتاہے : انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اپنے پاس علم ومعرفت کے آجانے کے بعد اوراس اختلاف کامنشا ء وہی جاہ طلبی اور با لادستی کی خواہش تھی (فَمَا اخْتَلَفُوا إِلاَّ مِنْ بَعْدِ ما جاء َہُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَیْنَہُمْ) ۔
جی ہاں ! انہوں نے سرکشی ک جھنڈ ے بلند کردیئے اورایک گروہ دوسرے کی جان ک درپے ہوگیا ، یہاں تک کہ اتحاد واتفاق کے ذ ر ائع کواختلاف اورتفرقہ بازی کے اسباب بنالیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی طاقت کمزور ی میں بدل گئی ، اِن کی عظمت کے ستار ے ڈوب گئے ، ان کی حکومت و گر گوں ہوگئی اورخود دربدر کی ٹھو کریں کھانے لگے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہاہے کہ اس سے مراد وہ اختلاف ہیں جو انہوں نے پیغمبر ِاسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات جاننے کے بعد اُن کے بارے میں ظاہر کیے ۔
قرآن مجید اسی آ یت کے آخر میں انہیں خبر دار کرتے ہُوئے کہتاہے : لیکن یہ لوگ جن باتوں میں اختلاف کررہے ہیں ، قیامت کے دن تمہار ا پر وردگار ان کے بارے میں فیصلہ کردے گا ۔(إِنَّ رَبَّکَ یَقْضی بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ فیما کانُوا فیہِ یَخْتَلِفُون) ۔
توگو یاآپس میں اختلاف کرکے ایک توانہوں نے دنیا میں اپنی عظمت اور طاقت کو کھو دیااور دوسر ے اپنے لی آخرت کا عذاب مول لے لیا ۔
خداوند ِ عالم نے بنی اسرائیل کوجونعمتیں عطاکی تھیں اورانہوں نے کفرانِ نعمت کیا، اس کے ذکر کے بعد اس عظیم نعمت کابیان ہے جوخالقِ کائنات نے پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسر ے مسلمانوں کوعطا فر مائی ہے ، ارشاد ہوتاہے : پھرہم نے تجھے برحق شریعت اور دین پر بر قرار رکھا (ثُمَّ جَعَلْناکَ عَلی شَریعَةٍ مِنَ الْاٴَمْرِ ) ۔
” شر یعت “ کامعنی ایساراستہ ہے جو پانی تک پہنچنے کے لیے دریاوغیرہ کے کنارے پر بناپا جاتا ہے کہ جہاں پر پانی کی سطح دریا حاصل سے نیچے ہوتی ہے . بعد ازاں اس کا اطلاق ہراس راستے پر ہونے لگا جوانسان کومنزل مقصود تک پہنچا تاہے اوردین ِ حق کے بارے میں اس کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ کہ وہ دین حق انسان کووحی کے سرچشمہ اور خدا کی رضا اور سعادت ابدی تک پہنچا تا ہے جو آبِ حیات کے مانند ہے یہ لفظ قرآن مجید میں صرف ایک بارا ستعمال ہواہے اور وہ بھی صرف اسلام کے بارے میں ۔
یہاں پر ” الامر “ سے مراد دین حق ہے ،جس کی طرف گزشتہ آ یت میں ارشارہ ہوچکاہے ،جہاں پر کہاگیا ہے :
’ ’ بینا ت من الامر “
چونکہ یہ راستہ ، نجات اور کامیابی کاضامن ہوتاہے ،لہٰذا اس کے فوراً بعد فر مایا گیا ہے ” اے میرے رسُول ! بس تواس کی پیروی کرتا رہ (فَاتَّبِعْہا) ۔
اور چونکہ اس کے برعکس جاہلوں کی خواہشات کی پیروی ہی ہوتی ہے لہذاآیت کے آخر میں فرمایاگیا ہے : اور نادان سرکشوں کی خواہشات ِ نفسا نی کی پیروی نہ کرنا (وَ لا تَتَّبِعْ اٴَہْواء َ الَّذینَ لا یَعْلَمُون) ۔
حقیقت یہ ہے کہ دوراستوں کے علاوہ تیسر اراستہ ہے ، ایک توانبیاء اور وحی کاراستہ اور دوسر ے جاہلوں کی خواہشات نفسانی کاراستہ ،اگر کوئی شخص پہلے راستے سے مُنہ موڑلے گا تودوسرے راستے پر چل پڑ ے گااور اگرجاہلوں کے راستے سے رو گردانی کرے گا توانبیاء کی راہوں پر چل نکلے گا ،اسی لیے تو قرآن مجید نے ہدایت کے ہر ا س طرز ِ عمل پر خط تنسیخ کھینچ دیاہے جوسرچشمہٴ وحی سے مدد حاصل نہیں کرتا ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض مفسرین نے کہاہے کہ رؤ سائے قریش پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس آکر عرض کرنے لگے : آیئے !آپ اپنے بزرگوں کے دین کی طرف پلٹ آ یئے ،کیونکہ وہ ایک توآپ سے افضل تھے اور دوسر ے صحت مند ۔
اس زمانے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی مکّہ میں ہی تھے کہ ا س موقع پر مندرجہ بالا آ یت نازل ہوئی ( ۳) اس میں ان قریشیوں کو جواب دیاگیاہے کہ حق تک پہنچنے کاراستہ آسمانی وحی ہے جوتجھ پرنازل ہوئی ہے ، نہ کہ جن خواہشات کا یہ قر یشی جاہل تقاضا کرتے ہیں۔
ہمیشہ سچے دینی ر ہبروں نے جب بھی کوئی تازہ اورپاک دین پیش کیا، انہیں جہلا ء کے ایسے ہی وسو سوں کاسامنا کرناپڑا ، وہ کہتے ہیں کہ کیاتم بہتر سمجھتے ہو یا تمہارے وہ بزرگ اور آ با ؤ اجداد تم سے پہلے گزرچکے ہیں؟ ان کااصرار ہوتا کہ وہ اسی خرافاتی روش کواپنائیں جس پروہ لوگ خود گا مزن ہیں ،اگران کی اس قسم کی تجویز پر عمل در آمد کیاجاتا توانسان ارتقاء کی طرف ایک قدم بھی نہ اُٹھا سکتا ۔
بعد کی آ یت درحقیقت مشرکین کے آ گے جُھکنے کی نہی کی ایک دلیل اورعلّت ہے ،ارشاد ہوتاہے : یہ لوگ خدا کے مقابلے میں نہ توتجھے بے نیاز کرسکتے ہیں اور نہ عذاب سے بچا سکتے ہیں (وَ إِنَّ الظَّالِمینَ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیاء ُ بَعْضٍ َ) ۔
یہ سب ایک قماش کے لوگوں ہیں اور ایک ہی راستے کے راہی ہیں ، سب کمز ور د ناتواں ہیں ۔
لیکن یہ با ور بھی آ پ ہر گز نہ کریں کہ آپ اوردوسرے باایما ن افراد اس وقت اگراقلیّت میں ہیں ،تو آپ لوگوں کا کوئی یارو مددگار نہیں ہے ،کیونکہ ” اللہ پرہیز گار وں کامددگا ر ہے “ (وَ اللَّہُ وَلِیُّ الْمُتَّقین) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ بظاہر وہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں اور بڑ ی طاقت و دولت کے ماک بھی ہیں ، لیکن حق کی بے انتہا قدرت کے سامنے تووہ ایک ناچیز ذرّے سے زیادہ قیمت نہیں رکھتے ۔
زیرتفسیر سلسلے کی آخری آیت میں گزشتہ مضامین اوردین ِ الہٰی کی پیروی کی طرف انبیاء کی دعوت پرتاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : یہ قرآن اور شریعت ان لوگوں کے لیے بینائی کے وسائل اورہدایت ورحمت کے ذ رائع ہیں جوان پر یقین رکھتے ہیں (ہذا بَصائِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدیً وَ رَحْمَةٌ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ) ۔
” بصا ئر “ جمع ہے ” بصیرت “ کی جس کے معنی ہیں بینائی ، ہرچند کہ یہ لفظ زیادہ ترعقلی اور فکری بنیش کے بارے میں بولا جاتا ہے ،لیکن کبھی ان سب امور پر بھی قابلِ ذکرہے کہ ” یہ قرآن اور شریعت بینا ئیاں ہیں “ یعنی یہ خود عین بینائی ہیں، وہ بھی نہ صرف ایک بینائی بلکہ کئی بینا ئیاں جو وصرف ایک پہلو کے لحاظ سے بلکہ تمام پہلوؤں کی رُو سے زندگی میں انسان کوصحیح بنیش عطا کرتی ہیں ۔
اس قسم کی تعبیرات قرآن مجید کی کئی اور آیات میں بھی ہیں ، جن میں سے ایک سُورہ انعام کی آ یت ۱۰۴ بھی ہے ،جس میں ارشاد ہوتاہے :
”قَدْ جاء َکُمْ بَصائِرُ مِنْ رَبِّکُم “
” تمہار ے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینا ئیاں آچکی ہیں ‘ ‘ ۔
یہاں پر آ یت میں تین موضوع بیان ہوئے ہیں ، ایک ” بصائر “ دوسرے ” ہدایت “ اور تیسرے ” رحمت “ کہ بالتر تیب تینوں ایک دوسرے کے علّت و معلول بن رہے ہیں، روشنی عطا کرنے والی آ یات اور بینائی عطاکرنے والی شریعت انسان کو ہدایت کی طرف لے جاتی ہیں اور ہدایت بھی رحمت الہٰی کاذریعہ ہے ۔
یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ ”بصائر“ کوعامتہ النّا س کے لیے بیان کیا گیا ہے ،لیکن ” ہدایت ‘ ‘ اور ” رحمت “ کوان لوگوں سے مخصوص کیاگیا ہے جوصاحبان یقین ہیں اورایسا ہونا بھی چاہیئے ،کیونکہ قرآنی آ یات کسِی قوم اور قبیلے سے مخصوص ہیں ، بلکہ جو لوگ بھی ” النّاس “ کے مفہوم میں آتے ہیں ، اس میں شریک ہیں ، اس میںز مان ومکان کی کوئی قیدنہیں ہے ،لیکن یہ ایک فطری امر ہے کہ ہدایت یقین کی ایک شاخ ہے اور رحمتِ خداوند ی بھی اسی کانتیجہ ہوتی ہے ، لہذا ہرایک کے شامل حال نہیں ہوسکتی ۔
بہرحال یہ جوفر مایاگیاہے کہ قرآن میں عین بصیرت اورعین ہدایت ورحمت ہے ،یہ ایک نہایت ہی خو بُصورت تعبیر ہے ،جواس آسمانی کتاب کی عظمت وتاثیر اور گہرائی وگیرائی پر دلالت کرتی ہے . لیکن ان لوگوں کے لیے جورہر ومنزل اور متلاشی حق ہیں ۔
۱۔ مجمع البیان ، جلد ۹،ص ۷۵۔
۲۔ بحا رالا نوار طبع جدید ،جلد ۱۱، ص ۳۱۔
۳۔ تفسیر کبیر فخر الدین رازی ، جلد ۲۷ ،ص ۲۶۵۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma