بنی اسرائیل کی آ ز مائش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گزشتہ آ یات میں فرعونیوں کے غرق اورہلاک ہونے اوران کی شان و شوکت اوراقتدار کے کاتمے اوراقتدار اور شان وشوکت کا دوسرو ں کو منتقل ہونے کاتذکرہ تھا، زیر تفسیر آ یات میں اس کے دوسرے پہلو یعنی بنی اسرائیل کی نجات کی بات ہورہی ہے .ارشاد ہوتاہے : ہم نے بنی اسرائیل کو رسواکُن عذاب سے نجات دلائی (وَ لَقَدْ نَجَّیْنا بَنی إِسْرائیلَ مِنَ الْعَذابِ الْمُہین) ۔
سخت اور طاقت فرساجسمانی اور روحانی اذ یتوں سے کہ جوان کے دِل کی گہرائیوں میں اتر چکی تھی ،یعنی نومولُود لڑکیوں کوقتل کردیاجاتاتھا اورخدمت اورہو س بازی کے لیے لڑ کیوں کوزندہ رکھاجاتاتھا ، ان سے بے گا ر لی جا تی تھی اورکس قدر درد ناک ہے ایسی قوم کامقد رجواس قسم کے خو نخوار اور دیو سیرت دشمن کے چنگل میں پھنس جائے ۔
جی ہا ں ! خداوند ِ عالم نے موسیٰ علیہ السلام کے بحکم خدا قیام اورتحر یک کی وجہ سے اس مظلُوم قوم کی تاریخ کے سفا ک ظالموں کے چنگل سے نجات بخشی لہٰذا اس کے بعد ارشاد فر مایاگیاہے : ” فرعون کے چنگل سے “ (مِنْ فِرْعَوْن) ۔
کیو نکہ وہ ایک متکبر شخص اورحد سے تجاوز کرنے والوں میں سے تھا (َ إِنَّہُ کانَ عالِیاً مِنَ الْمُسْرِفینَ) ۔
یہاں پر ” عالی “سے مراد مقام و منزلت کی سربلندی نہیں بلکہ اس کی بر تری ک ی خواہش اورتجاوز اوراسراف میں بلندی ہے ،جیسے کہ سُورہٴ قصص کی چوتھی آ یت میں بھی آچکاہے :
” إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِی الْاٴَرْض“ --
” فرعون نے زمین میں برتری چاہی ( اور یہ برتری کی خواہش اس حدتک بڑھ گئی کہ اس نے خدائی کادعویٰ کرڈالا اورخو د کوربِّ اعلیٰ کہلانے لگا )“ ۔
’ ’ مسرف “ ” اسراف “ کے مادہ سے ہے جوحدسے ہرقسم کے تجاوز کوکہتے ہیں ،خواہ وہ اعمال میں ہو یاگفتار میں،اسی لیے قرآن مجید کی مختلف آ یات میں تباہ کا روں کے بارے میں ” مسرف “ کالفظ استعمال کیاگیاہے جوظلم وفساد میں حد سے بڑھ گئے ہیں نیز مطلقاً گناہوں کو بھی ” اسراف “ کہاگیاہے ،جیساکہ سورہٴ زمر کی ۵۳ ویں آ یت ہے ۔
” قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ اٴَسْرَفُوا عَلی اٴَنْفُسِہِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ“
” کہہ دے :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنے آپ سے زیادتی کی ہے ! خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو “۔
بعد کی آ یت میں بنی اسرائیل پرخدا کی ایک اور نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے :
ہم نے انہیں اپنے علم کی بناء پر اس زمانے ک عا لمین پر بر تر ی دی اورانہیں برگز یدہ کیا (وَ لَقَدِ اخْتَرْناہُمْ عَلی عِلْمٍ عَلَی الْعالَمینَ) ۔
لیکن انہوں نے ان نعمتوں کی قدر نہیں جانی ، بلکہ کفر انِ نعمت کیااوراپنے کیے کی سزاپائی ۔
اس طرح سے وہ ” اپنے زمانے کی بر گز یدہ اُمّت “ تھے ، کیونکہ ” عالمین “ اُس دور کے لوگ ہیں نہ کہ تمام زمانوں کے لوگ ،کیونکہ قرآن نے صاف طورپر سُورہ ٴ آل عمران کی ایک سو دسویں آ یت می اُمّتِ اسلامیہ سے خطاب کرتے ہُوئے فرمایا ہے :
”کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاس ... “
” تم بہترین اُمّت تھے ،جنہوں نے نے لوگوں کے مفاد کے لیے عرصہ ٴ وجُود میںقدم رکھا“۔
جس طرح کہ ان سرز مینوں کے بارے میں ہے جن کے بنی اسرائیل وارث ہُوئے ،چنانچہ سُورہ ٴ اعراف کی ۳۷ ۱ ویں آ یت میں ارشاد فرمایاگیاہے ۔
”وَ اٴَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذینَ کانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشارِقَ الْاٴَرْضِ وَ مَغارِبَہَا الَّتی بارَکْنا فیہا“
ہم نے اس مستضعف قوم کو بابرکت زمین کے مشارق و مغارب کاوارث بنایا ۔
ظاہر سی بات ہے کہ بنی اسرائیل اس زمانے میں تمام دُنیا کے وارث نہیں بنے تھے بلکہ اُن کے اپنے علاقہ کے مشرق ومغرب مراد ہیں ۔
البتہ بعض مفسرین اس بات کی معتقد ہیں کہ بنی اسرائیل میں بعض خصوصیات پائی جاتی ہیں جوتاریخی طورپر صرف انہی کے ساتھ مخصوص ہیں جن میں سے ایک ، انبیاء کی کثرت بھی ہے ، کیونکہ کسِی قوم میں سے اس قدر انبیاء علیہماالسلام مبعُوث نہیں ہُوئے ۔
لیکن یہ بات علاوہ اس کے کہ ان کی مطلق خصوصیّت ثابت نہیں کرتی ، ان کی کسی قسم کی خصوصیّت بھی نہیں بن سکتی کیونکہ مُمکن ہے ہم ان میں سے کثیر تعداد میں ابنیاء کے قیام کوان کی نہایت سرکشی اور ڈھٹائی کی دلیل سمجھیں ،جیساکہ جناب مُوسیٰ علیہ السلام کے قیام ک بعد الے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان لوگون نے اپنے پیغمبر کے ساتھ کیاکیا کُچھ کیا؟
بہرحال ہم نے جوکچھ مندرجہ بالا آ یت کی تفسیر میں بیان کیاہے ،وہ ایسی چیز ہے جسے بہت سے مفسرین نے بنی اسرائیل کی بالنسبة لیاقت کے طورپر قبول کیاہے ۔
لیکن اس بات کی پیش نظر رکھتے ہُوئے کہ یہ ہٹ دھرم قوم بقول قرآن مجید ہمیشہ اپنے انبیاء کوستاتی رہی ، اورپوری ہٹ دھرمی اورخاص تعصب کی بناپر احکام الہٰی کامقابلہ کرتی رہی ، حتی کہ جب وہ تازہ دریا ئے نیل سے نجات پاچُکی تھی موسٰی علیہ السلام کوبُت سازی کی تجو یر پیش کردی، مُمکن ہے یہ بات کہی جائے کہ مندرجہ بالاآ یت ان کے کسِی خصوصی امتیاز کوبیان نہیں کررہی بلکہ ایک اورحقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے ، بلکہ ایک اورحقیقت کی نشاندہی کررہی ہے اوراس آ یت کامعنی یُوں ہے ۔
” باوجودیکہ ہم جانتے تھے وہ خدا کی نعمتوں سے ناجائز مفاد اٹھائیں گے ،پھر بھی ہم نے انہیں سربلند ی عطا کی تاکہ ہم اُنہیں آ زمائیں “۔
جیسا کہ بعد کی آ یت سے بھی یہی سمجھا جاسکتاہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اور بھی نعمتیں عطاکیں تاکہ انہیں آ زما ئے ۔
تواس طرح سے اللہ کا یہ انتخاب نہ فقط ان کسِی خصوصیّت کی دلیل نہیں بلکہ ضمنی طورپر ان کی مذمت کاحامل بھی ہے کیونکہ انہوں نے اس نعمت کاحق ادا نہیں کیااوراس امتحان سے عہدہ برآ نہیں ہوئے ۔
زیر تفسیر آ یات کے سلسلے کی آخری میں ان بعض نعمتوں کاذکرہے ،جوخدانے انہیں عطا کی تھیں ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے : اور ہم نے انہیں اپنی عظمت اورقدرت کی ایسی نشانیاں دیں جن میں ان کی صریح آ زمائش تھی (وَ آتَیْناہُمْ مِنَ الْآیاتِ ما فیہِ بَلؤُا مُبینٌ ) ۔
کبھی تو سینا کے صحراؤں اورتیسہ کی وادیوں میں ان کے سروں پر بادلوں کاسایہ کیا ، کبھی ان پر ” من وسلویٰ “نازل کیا کبھی سخت پتھروں کے دل سے پانی کاچشمہ ان کے لیے جاری کیا اور کبھی دوسری مادی او ر روحانی نعمتیں ان کے نصیب کیں ۔
لیکن یہ سب کچھ امتحان اور آز مائش کے لیے تھا ،کیونکہ خداتعالیٰ کچھ لوگوں کومصیبت کے ذریعے آ زماتاہے ، اور کچھ کونعمت کے ذریعے ، جیساکہ سُورہٴ اعراف کی آ ۱۶۸ ویں آ یت میں ہے :
”وَ بَلَوْناہُمْ بِالْحَسَناتِ وَ السَّیِّئاتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ “
” ہم نے بنی اسرائیل کونعمتوں کے ذریعے آ زمایا کہ شاید وہ غلط راستے سے باز آ جائیں“۔
بنی اسرائیل کی یہ سرگزشت صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے بیان کرنے کا مقصد شاید یہ ہو کہ وہ دشمنوں کی کثرت اوران کی طاقت سے نہ گھبر ائیں اور مطمئن رہیں کہ جو خدافرعو نوں کی طاقت ، اقتدار اورعظمت کوخاک میں ملاسکتاہے اور بنی اسرائیل کو ان کے مُلک اورحکومت کاوارث بناسکتاہے وہ مستقبل قریب میں اس قسم کامیابی تمہار ے نصیب بھی کرسکتاہے ،لیکن جیساکہ نعمتوں کے ذ ریعے ان کی آزمائش ہوئی ہے ، تمہیں بھی اسی طرح امتحان کی بھٹی میں ڈال جائے گا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اقتدار اور طاقت کے حصُول کے بعد تم کیاکر وگے ؟
اور یہ زبردست تنبیہ ہے تمام اقوام اور مِلتوں کے لیے کہ جب انہیں خدائی مہربانی ، کامیابی اور نعمت نصیحت ہوجاتی ہے تواس موقع پر سخت امتحان کا دروازہ بھی کھل جاتاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma