مرنے اور عذاب سے جان چھڑا نے کی آ رزُو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ان آیات میں بر وز ِ قیامت مجرمین اورکفار کاانجام بتایاگیاہے تاکہ پرور دگار کے فرمانبر دار موٴ منین کی تشو یق آ ور انجام سے ان کاتقا بل کیاجائے اوردونوں پہلو واضح ہوجائیں ۔
پہلے فر مایاگیاہے : مجر م جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے (إِنَّ الْمُجْرِمینَ فی عَذابِ جَہَنَّمَ خالِدُونَ) ۔
” مجرم “” جرم “ کے مادہ سے ہے اور دراصل ” کاٹنے “ کے معنی میں آ تاہے جوبنیاد ی طورپر درخت سے پھل توڑنے اورخود درخت کاٹنے کے لیے استعمال ہوالیکن بعد میں ہرقسم کے بُرے اعمال کے لیے استعما ل ہونے لگا . اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ بُر ے اعمال انسان کوخدا اورانسان اقدار سے جُدا کردیتے ہیں ۔
لیکن ایک بات مسلّم ہے کہ یہاں پرتمام مجرمین نہیں بلکہ ایسے مجرمین مراد ہیں جنہوں نے کُفر اختیار کیاہے اِس کی وجہ ایک تو خلو د یعنی عذاب میں ہمیشہ رہنے کا قرینہ ہے اور دوسر اان مومنین کے ساتھ مقابلے کاقرینہ ہے جن کاذکر گذ شتہ آ یات میں ہو چکا ہے .یہ جومفسرین نے کہاہے کہ اس سے مراد تمام مجر م ہیں ، بہت بعید معلوم ہوتاہے ۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی سوچے کہ شاید زمانہ گز رنے کے ساتھ ساتھ ” دائمی عذاب “ کی شدّت میں کمی واقع ہوجائے اور یہ عذاب آہستہ آہستہ گھٹتا جائے ،لہذا بعدکی آ یت میں فر مایاگیاہے کہ ان کے عذاب میں ہرگز کمی نہیں کی جائے گی اوران کے لیے کسی قسم کی نجات کاراستہ نہیں ہوگا اوروہ وہاں پر ہرچیز سے مایوس ہوں گے ( لا یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَ ہُمْ فیہِ مُبْلِسُونَ ) ۔
اس طرح سے ان کاعذاب ایک تو زمانے کے لحاظ سے دائمی ہوگا اوردوسر ے شدت کے اعتبار سے ،کیونکہ ” مفردات “ میں ” راغب “ کے بقول ” فتور “ کامعنی تیزی کے بعد سکون ، سختی کے بعد نرمی اور طاقت کمز وری ہے ۔
” مبلس “ ” ابلاس “کے مادہ سے ہے جودراصل اس غم کے معنی میں ہے جوسخت پریشانی کی وجہ سے انسان کولاحق ہوتاہے اور چونکہ اس قسم کاغم انسان کوخاموشی اورسکوت کی دعوت دیتاہے لہذا ”ابلاس “کامادہ سکوت وخاموشی اورجواب نہ دے سکنے کے معنی میں بھی استعمال ہواہے اورچونکہ سخت مصائب میں انسان اپنی نجات سے مایو س ہوجاتاہے ، لہذا یہ مادہ مایوس ہُونے کے لیے بھی استعمال ہواہے اور” ابلیس “کو بھی اس وجہ سے ابلیس کہتے ہیں کہ وہ خدا کی رحمت سے مایوس ہے ۔
بہرحال ان دوآیات میں تین نکات پر زیادہ زور دیا گیا ہے ، ایک توعذاب کادوام ، دوسرے عذاب میں کمی کانہ ہونا اور تیسر ے غم اور مطلقا ً مایوسی .کس قدر درد ناک ہے ایسا عذاب جس میں یہ تینوں چیزیں جمع ہوں ۔
بعد کی آ یت میں یہ نکتہ ذہن نشین کرایاجارہاہے کہ خدا کایہ درد ناک عذاب ایک ایسی چیزہے جسے ان لوگوں نے اپنے لیے خود ہی فراہم کیاہے . چنانچہ ارشاد ہوتاہے : ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا وہ لوگ خود ظالم تھے (وَ ما ظَلَمْناہُمْ وَ لکِنْ کانُوا ہُمُ الظَّالِمینَ ) ۔
درحقیقت جس طرح سابقہ آ یات میں ان بے انہتا نعمتوں کاسرچشمہ پرہیز گار ی مومنین کے اعمال کو بتا یاگیا ہے یہاں پر بھی جاو دانی عذاب کاسر چشمہ ان ظالموں کے اعمال کوبتایا گیا ہے ۔
اس سے بڑھ کر اورکیا ظلم ہوسکتاہے کہ انسان خداکی آ یات کاانکار کرکے اپنی سعادت کی جڑوں پر کلہاڑ اچلادے . سورہٴ صف آیت نمبر ۷ میں ارشاد ہوتاہے :
وَ مَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَری عَلَی اللَّہِ الْکَذِب
” اس سے بڑ ھ کر ظالم اورکون ہوسکتے ہیں جواللہ پرجھوٹ باندھیں “۔
جی ہاں ! قرآن مجید نے انسا ن کی سعادت اورشقا وت کا اصلی منبع خودانسان اوراس کے اعمال کو ہی بتایا ہے نہ کہ وہ خیال مسائل جوبعض لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیے ہیں ۔
پھر ان مجرمین کی ایک اور ناتوانی کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : وہ پکا ریں گے اے مالکِ جہنّم ! ہماری آرزو ہے کہ تمہارا پروردگار ہمیں موت ہی دے دے ( تاکہ ہم آ سو وہ خاطر ہوجائیں) ( وَ نادَوْا یا مالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنا رَبُّک ) ۔
حالانکہ ہرشخص موت سے بھاگتااور زندگی کے دوام کاخواہش مند ہوتاہے لیکن بعض اوقات انسان پرمصائب کے اس قدر پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ وہ خدا سے موت کی آرزو کر نے لگتاہے .ایسا اتفاق دُنیا میںخا ل خال لوگوں کے لیے پیش آتا ہے ، لیکن وہاں پر مجرمین کے لیے یہ آرزو عمومی حیثیت کی حامل ہوگی اور تمام مجر م موت کی تمنّا کریں گے ۔
لیکن یہ آر زو بے فائدہ ہوگی ، کیونکہ دارو غہ ٴ جہنم انھیں جوا ب دے گا : ” تمہیں اسی حال میں رہناہوگا اورموت کے ذریعے تمہیں نجات نہیں مل سکتی “ (قالَ إِنَّکُمْ ماکِثُونَ ) (۱) ۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ بعض مورخین کے بقول دارو غہٴ جہنم انھیں بڑی بے پر واہی کے ساتھ ایک ہزار سال بعد یہ جوا ب دیگا اور یہ بے اعتنائی کس قدر درد ناک ہوگی ( ۲) ۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ وہ اچھی طرح جا نتے ہوں گے اورانہیں پورایقین ہوگاکہ وہاں پرموت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر ان کی یہ کیسی درخواست ہوگی ؟ لیکن اس بات کی طرف بھی وجہ کرنی چاہیئے کہ جب ایک ناتواں شخص ہرجگہ سے مایوس ہوجاتاہے تواس کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں فطری بات ہوتی ہیں ۔
جی ہاں ! جب وہ نجات کی تمام راہیں اپنے لیے مسدُود دیکھیں گے تو دل سے اس قسم کی چیخ و پکار کریں گے ۔
لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ خواہ براہِ راست خداسے یہ درخواست کیوں نہیں کریں گے ، بلکہ دا رو غہ ٴ جہنم سے التماس کریں گے کہ وہ اپنے خداسے ان کی موت مانگے ؟ تواس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس دن خد ا سے محُبوب ” چھپے ہوئے ) ہوں گے .جیساکہ سورہٴ مطففین کی پند رہویں آیت میں ہے :
”کَلاَّ إِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُون “
لہٰذا وہ فرشتہ ٴ عذاب کے ذریعے درخواست کریں گے ،یاپھراس لیے کہ داروغہ ٴ جہنّم فرشتہ ہوگا اورفرشتے خداکے مقرب کرآئے ہیں لیکن تم
میں سے بہت سے لوگ حق کوناپسند کرتے ہیں اوراسے نہیں مانتے ہیں (لَقَدْ جِئْناکُمْ بِالْحَقِّ وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کارِہُون) ۔
یہاں پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ آ یا یہ بات داروغہ ٴ جہنّم کی ہے اور ” ما“ سے مراد فرشتوں کی جماعت ہے اور مالکِ دوزخ بھی اس جماعت میں ہے یاخدا کی طرف سے ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے دونظر یئے ہیں ۔
البتہ کلام کاسیاق اس بات تقاضا کرتاہے کہ یہ مالک دوزخ کی بات ہو . لیکن آیت کامضمون یہ بتاتاہے کہ کلامِ خدا ہے کیونکہ اسی سے مناسبت رکھتاہے ،جیسا کہ سُورہٴ زمر کی آ یت ۷۱ اسی بات کی شاہد ہے :
” وَ قالَ لَہُمْ خَزَنَتُہا اٴَ لَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَتْلُونَ عَلَیْکُمْ آیاتِ رَبِّکُم“
” جہنّم کے خاز نین انہیں کہیںگے : کیاتمہارے پاس تم میں سے رسُو ل نہیں آ ئے جو تمہار ے سامنے تمہار ے ربّ کی آ یات کی تلاوت کرتے تھے “ ۔
یہاں پر خازنین جہنم نے رسُولوں کوحق لانے والا بتایاہے نہ کہ خود کو ۔
’ ’ حق “ کاوسیع معنی ہے جو تمام تقدیر سازحقائق پر محیط ہے اگرچہ توحید ،معاد اورقرآن کا مسئلہ ان میں سرفہرست ہے ۔
یہ تعبیر درحقیقت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم صرف انبیاء کرام علیہ السلام ہی کے مخالف نہیں تھے ، بلکہ سر ے سے حق کے مخالف تھے اور یہی مخالفت تمہارے لیے دائمی عذاب کاتحفہ لے کر آ ئی ہے ۔
بعد کی آ یت میں ان کی حق سے بیزاری اور باطل کی طرفداری کے ایک گوشے کو بیان کر تے ہوئے فرمایاگیا ہے : بلکہ انہوں نے سازشوں پر کمر باندھ لی ہے ، ہم نے بھی ان کے بارے میں کُچھ ٹھان لیاہے (اٴَمْ اٴَبْرَمُوا اٴَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ) (۳) ۔
انہوں نے نوراسلام کوبجھا نے ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قتل اورہر مُمکنہ کوشش سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی ہے ۔
اور ہم نے بھی یہ ٹھان لیاہے کہ انہیں اس جہاں اوراُس جہاں ، دونوں میں سخت سزادیں گے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کی شانِ نزول ، ہجرت سے قبل آنحضرت ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قتل کی سازش سے متعلق بتائی ہے کہ جس کی طرف سُورہ ٴ انفال کی آ یت ۳۰ میں اِن الفاظ کے ساتھ اشارہ کیاگیا ہے :
” وَ إِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ ...“ ( ۴) ۔
لیکن ظاہر ی مفہوم یہ ہے کہ یہ امر ایک طرح کی مطابقت ہے نہ کہ اس کی شان ِ نزُول ۔
بعد کی آ یت درحقیقت ان کی سازشوں کے اسباب میں سے ایک سبب بیان کر رہی ہے ، ارشاد ہوتاہے ، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے بھید اورسر گوشیوں کونہیں سنتے (اٴَمْ یَحْسَبُونَ اٴَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَ نَجْواہُمْ ) ۔
لیکن ایسی بات نہیں ہے ، ہم خود بھی ان کی باتوں کوسنتے ہیں اور ” ہمارے رسُول اورفرشتے ان کے پاس موجُود ہیں اور ہمیشہ ان کی ظا ہر اورپوشیدہ باتوں کولکھتے جاتے ہیں (بَلی وَ رُسُلُنا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُون) ۔
”سر “ وہ بات ہوتی ہے جسے انسان اپنے دل میں چھپائے رہتاہے یاپھر اپنے راز دار دوستوں سے کہتاہے اور ” بخویٰ “ سرگوشی کوکہتے ہیں ۔
جی ہاں ! خداصرف ان کی پوشیدہ باتوں ہی کو نہیں جانتا جوچھپ چھپا کراورسر گوشی کی صُورت میں کرتے ہیں بلکہ حدیث نفس اوران کے دل کے ساتھ ہونے والی باتوں سے بھی آگا ہ ہے کیونکہ اس کے نز دیک مخفی اور آشکار میں کوئی فرق نہیں .جو فرشتے انسان کے اعمال اور گفتار لکھنے کے لیے مقرر کیئے گئے ہیں وہ بھی ہمیشہ ان باتوں کوان کے نامہٴ اعما ل میں لکھتے ہیں رہتے ہیں .اگر چہ اس کے بغیر بھی حقائق روشن ہیں ، لیکن یہ اس لیے ہے تاکہ وہ دُنیا و آخرت میں اپنے اعمال ، گفتار اورسازشوں کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
۱۔ ” ماکثون “ ” مکث “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی کسِی چیز کے انتظار میں تھہر ناہوتاہے .شاید مالکِ دوزخ کی طرف سے یہ تعبیر ان کاایک قسم کا مذاق اڑ اناہو . جیسے اگرکوئی غیر مستحق شخص کسی چیز کا تقاضا کرتاہے تواسے کہاجاتاہے ، انتظار کرو ۔
۲۔ تفسیر مجمع البیان ” اپنی آ یات کے ذیل میں “ البتہ بعض مفسرین نے سالوں کے اس فاصلے کاعدد ۱۰۰ بتایاہے اور بعض نے ۴۰ ،لیکن سالوں کی تعداد خواہ کچھ ہو ، بے اعتنائی کی دلیل ضرور ہے ۔
۳۔ مذ کورہ با لاآ یت میں ” امّ “ منقطعہ ہے اور ” بل ‘ ‘ کے معنی میں ہے اور” ابرام “ کامعنی بَل دینا اور پختہ کرناہے ۔
۴۔تفسیرفخررازی اسی آ یت کےذیل میں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma